سُر اداسی کے بکھیریں سانس کی شہنائیاں
جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاںمنتظر رہ رہ کے آنکھیں اِس قدر دھندلا گئیںفرقِ روز و شب تلک جانیں نہ اب بینائیاںرنگ پھیکے پڑ گئے کیا کیا رُتوں کے پھیر سےگردشوں سے صورتیں کیا کیا نہیں گہنائیاںجاگنے پر، تخت سے جیسے چمٹ کر رہ گئےہاتھ جن کے، سو کے اُٹھنے پر لگیں دارائیاںلے کے پیمانے گلوں کی مسکراہٹ کے رُتیںناپنے کو آ گئیں پھر درد کی گہرائیاںاُس سے ہم بچھڑے ہیں ماجد ابکے اِس انداز سےپت جھڑوں میں جیسے پتوں کو ملیں رُسوائیاں٭٭٭
Bookmarks