اب کی بہار بھی چلتے دیکھا زور چمن پہ وہ ژالوں کا
دھجی دھجی برگ و شجر ہیں، حال بُرا ہے نہالوں کاجبر کے ہاتھوں جسم تلک وہ سادہ منش کٹوا بیٹھےتیغ زنی سے بھی کچھ بڑھ کر زعم جنہیں تھا ڈھالوں کادشت و دمن میں ایسا تو دہلاتی چپ کا راج نہ تھالفظ و معانی تک پہ گماں ہے ٹھٹھکے ہوئے غزالوں کااِتنے چلے پر بھی نہیں پہنچے جس کی خنک فضاؤں میںاُس بگیا تک اور سفر ہے جانے کتنے سالوں کاماجد اب دُرّوں کی جگہ وہ ہاتھ میں پرچم رکھتے ہیںدھندا راس جنہیں آیا جسموں سے اتری کھالوں کا٭٭
Bookmarks