بے خبری
جب بھی آنگن میں مرے وصل کا موسم آیا
تو نے تحفے میں مجھے ہجر کے ساون بخشے
شام جب بھی مری دہلیز پہ اُتری کوئی
میری جانب تو نے جلتے ہوئے سورج بھیجے
عمر وہ تھی کہ محبت کے ترانے لکھتا
تو نے بخشی ہیں مجھے درد میں ڈوبی نظمیں
تو کبھی کھول کے پڑھ میرا صحیفۂ اُلفت
خوں رُلا دیں گی تجھے زخم رسیدہ غزلیں
جب بھی سنسان ہوئے ہیں مرے گھر کے رستے
آیا پھر سے تو تماشۂ محبت کرنے
جب بھی میں سونے لگا چین کی نیندیں ظالم
آیا پھر سے تو مجھے زخم عنایت کرنے
پھر اچانک یوں ترا مجھ سے خفا ہو جانا
بھول کیا ہو گئی اے جانِ تمنا مجھ سے
میں ترے شہر سے گزروں، بنا پتھر کھائے
بے خبر تو کبھی اتنا تو نہیں تھا مجھ سے
ٔ ٭٭٭
Bookmarks