دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں
ہم ہیں حصارِ درد میں، اْس کو خیال بھی نہیں
اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جو ہے دھوپ کا
یہ جو نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں
وہ جو انا پرست ہے، میں بھی وفا پرست ہوں
اْس کی مثال بھی نہیں، میری مثال بھی نہیں
عہدِ وصالِ یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑکنیں
موجِ خون احتیاط، خود کو اْچھال بھی نہیں
تم کو زبان دے چکے، دل کا جہان دے چکے
عہدِ وفا کو توڑ دیں، اپنی مجال بھی نہیں
اْس سے کہو کہ دو گھڑی، ہم سے وہ آ ملے کہیں
مانا، محال ہے مگر، اتنا محال بھی نہیں



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out


Reply With Quote

Bookmarks