پلکوں پہ اُس کے ایک ستا را اور بس
زادِ سفر یہی تو ہمارا تھا اور بس
بنجر سماعتوں کی زمین کیسے کھِل اُٹھی
تم نے تو میرا نام پکارا تھا اور بس
میری فصیلِ ذات پہ چھا یا کُہر چھٹا
آنکھوں میں اسکے ایک شرارا تھا اور بس
اِک عمر میری ذات پہ سا یہ فگن رہا
کچھ وقت ہم نے سا تھ گزارا تھا اور بس
تاریکیوں میں نُور کی بارش سی ہو گی
آنکھوں میں تیرا عَکس اُتارا تھا اور بس
مجھ تک پہنچتا غم کا ہر دریا پلٹ گیا
شانے پہ میرے ہاتھ تمھارا تھا اور بس
Bookmarks