درد کا آتش فشان


اچانک درد کا آتش فشاں
پھر پھٹ پڑا ہے
ہر طرف اب دل کے زنداں میں
برستی آگ ہے
اور ضبط کا آہن پگھلتا ہے
وہ ساری خواہشیں میں نے جنہیں
مشکل سے زنجیروں میں جکڑا تھا
ہوئیں آزاد تو
تو ہر سمت اک محشر بپا ہے
بلکتی چیختی اور بیں کرتی خواہشیں
جتنا بھی چاہیں شور کر لیں
ان دیواروں میں
کوئی در کوئی روزن نہیں ہے