بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے
بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے
بہت مشکل تھا میرے واسطے یہ فیصلہ کرنا
کہ جیسے بے گناہ خود چلتے چلتے دار تک جائے
کہ جیسے خود خزاؤں کو کوئی پیغام بھجوائے
مگر اس سے بھی مشکل تھا
ہمارے بیچ آتی دوریوں کو بے بسی سے دیکھتے رہنا
تمہارے مہرباں لہجے میں گھلتی بے رخی کے وار کو سہنا
مجھے تسلیم ہے منھ زور جذبوں کی لگامیں میں نے کھینچی ہے
بساطِ جان میں نے خود سمیٹی ہے
Bookmarks