باب:وعظ اور تعلیم کے درمیان کسی ناگوار بات پر غصہ کرنا۔۔صحیح بخاری
بَاب الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ

جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۹۱ / حدیث مرفوع
۹۱۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ لَا أَکَادُ أُدْرِکُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مُنَفِّرُونَ فَمَنْ صَلَّی بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمْ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ۔

۹۱۔محمد بن کثیر، سفیان، ابوخالد، قیس بن ابی حازم، ابومسعودانصاری سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (آکر) کہا کہ یا رسول اللہ ، ہو سکتا ہے کہ میں نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پاسکوں کیونکہ فلاں شخص ہمیں (بہت) طویل نماز پڑھایا کرتا ہے ابومسعود کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ میں نہیں دیکھا آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلاتے ہو، دیکھو جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اس چاہئے کہ (قراۃ کے ادا میں) تخفیف کرے اس لئے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی ہوتے ہیں اور ضرورت والے بھی ہوتے ہیں۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۹۲ / حدیث مرفوع
۹۲۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَ بُو عَامِرِالْعَقَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ اعْرِفْ وِکَاءَهَا أَوْ قَالَ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ قَالَ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ فَغَضِبَ حَتَّی احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوْ قَالَ احْمَرَّ وَجْهُهُ فَقَالَ مَا لَکَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاءهَا وَحِذَاءهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَی الشَّجَرَ فَذَرْهَا حَتَّی يَلْقَاهَا رَبُّهَا قَالَ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ قَالَ لَکَ أَوْ لِأَخِيکَ أَوْ لِلذِّئْبِ۔

۹۲۔عبد اللہ بن محمد، ابوعامر عقدی، سلیمان بن بلال مدینی، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن، یزید، (منبعث کے آزاد کردہ غلام) زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے گری پڑی چیز کا حکم پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی بندش کو پہچان لے پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے (اگر اس کا کوئی مالک نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھائے، اور اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کردے، پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ اگر ملے؟ تو آپ غضب ناک ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے، پس راوی نے کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب، اس کی مشک اور اس کی سم (اس کے پاؤں) اس کے ساتھ ہیں، پانی پر پہنچے گا پانی پی لے گا اور درخت کھائے گا، لہذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی بکری (کا پکڑ لینا کیسا ہے) آپ نے فرمایا کہ اس کو پکڑ لو (کیونکہ وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی) یا اگر (کسی کے) ہاتھ نہ لگی تو بھیڑیے کی۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۹۳ / حدیث مرفوع
۹۳۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ کَرِهَهَا فَلَمَّا أُکْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوکَ حُذَافَةُ فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ أَبُوکَ سَالِمٌ مَوْلَی شَيْبَةَ فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَتُوبُ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔

۹۳۔محمد بن علاء، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے خلاف مزاج تھیں، جب آپ کے سامنے کثرت کی گئی، تو آپ کو غصہ آگیا اور آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو کچھ چاہو، مجھ سے پوچھو ایک شخص نے کہا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تیرا باپ حذافہ ہے پھر دوسرا شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے، آپ نے فرمایا تیرا باپ سالم ہے، شیبہ کا مولی، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ میں آثار غضب دیکھے، تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اللہ تعالی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔