پہلے کیا تھے اور اب کیا کہلانے لگے ہیں
ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیںنِیل کا فرعونوں سے ہُوا جب سے سمجھوتہجتنے حقائق تھے سارے افسانے لگے ہیںغاصب اُس کے ہاتھوں میں بارود تھما کرلا وارث بچے کو لو بہلانے لگے ہیںدھونس جما کر ہاں ریوڑ سے دور بھگا کربھیڑیے بھیڑ پہ اپنی دھاک بٹھانے لگے ہیںوہ جب چاہیں میں اُن کا لقمہ بن جاؤںجابر مجھ سے عہد نیا ٹھہرانے لگے ہیںپیروں تلے مسل کے مری رائے کی پرچیزور آور اپنا پرچم لہرانے لگے ہیںچندا تو کیا گردشِ وقت کے ہاتھوں اب کےچاند نگر تک بھی ماجدؔ گہنانے لگے ہیں٭٭٭
Bookmarks