غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
میں گیا وقت جا چکا ہوں، مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تُو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو بُری ہے جو اِختیار نہ کر
٭٭٭