فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دےیہ ہم کہ غیر ہیں با وصفِ دعویٰٔ وحدتجو راز دان ہوں باہم، ہمیں وہ سِینے دےہوس سے دُور ہو، اندر ہو پُر سکوں اُس کاکوئی جو دے تو مری قوم کو دفینے دےرہِ جنون بس اِتنی سی ڈھیل مانگتا ہوںہوئے ہیں زخم جو سینے میں، اُن کو سِینے دےجو وصف، خاص ہے تجھ سے بروئے کار بھی لالغت کو لفظ کو ماجدؔ نئے قرینے دے٭٭٭
Bookmarks