کھٹکا ہے یہ، کسی بھی پھسلتی چٹان پر
ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پرجیسے ہرن کی ناف ہتھیلی پہ آ گئیکیا نام تھا، سجا تھا کبھی، جو زبان پرچاہے جو شکل بھی وہ، بناتا ہے اِن دنوںلوہا تپا کے اور اُسے لا کے سان پراُس پر گمانِ مکر ہے اب یہ بھی ہو چلاتھگلی نہ ٹانک دے وہ کہیں آسمان پریک بارگی بدن جو پروتا چلا گیاایسا بھی ایک تیر چڑھا تھا کمان پرتاریخ میں نہ تھی وہی تحریر ، لازوالجو خون رہ گیا تھا عَلَم پر، نشان پرماجدؔ ہلے شجر تو یقیں میں بدل گیاجو وسوسہ تھا سیلِ رواں کی اٹھان پر٭٭٭
Bookmarks