سرِ خروار مچلے ہیں شرر آہستہ آہستہ
ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہاُجڑنے کی خبر ٹہنی سے ٹہنی تک نہیں پہنچیچمن میں سے ہُوا مِنہیٰ، شجر آہستہ آہستہہُوا پھر یوں، جنوں پر عقل نے پہرے بِٹھا ڈالےدِبک کر رہ گئے آشفتہ سر، آہستہ آہستہنظر میں ہے بہت بے رنگ دن کو اور بہ شب، روشنفلک پر چاند کا ماجدؔ سفر آہستہ آہستہ٭٭٭
Bookmarks