شاہوں ساجو دیکھا بھی تو ہے کم ہمیں دیکھا
بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھامنشا تھی ہر اوتار کی اِتنی سی کہ اُس نےمسرور تھا جب بھی، بہ سرِ خم ہمیں دیکھاہر تُند بگولے نے ہر اِک سیلِ غضب نےدیکھا بھی تو تنکوں ہی سا برہم ہمیں دیکھاہر دیکھنے والے نے دھندلکے میں حسد کےمہتابِ سرِ صبح سا مدّھم ہمیں دیکھاماجدؔ ہوئے ہم اوس کنارِ لبِ جُو کیہر موج نے ندیا ہی میں مدغم ہمیں دیکھا٭٭٭
Bookmarks