google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: بھٹو سیکولر نہیں، مذہب کے قریب تر تھے

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      بھٹو سیکولر نہیں، مذہب کے قریب تر تھے




      رشید امجد
      عام طور پر بھٹو کوسیکولر اور ضیاء الحق کو مذہبی کہا جاتا ہے۔ میری رائے میں یہ خیال درست نہیں۔ بھٹو اندر سے زبردست مذہبی شخص تھے، فرق صرف یہ ہے کہ ان کا تصور مذہب حرکی اور انقلابی تھا۔ وہ مسلمانوں کو امپیر یلزم اور کمیونزم (اس وقت) کے درمیان ایک بارگیننگ قوت بنانا چاہتے تھے۔ تاریخی شواہد و عوامل پر نظر ڈالیں تو آج جن لوگوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے ان کی ابتدائی تربیت اور گروہ بندی کا خیال بھٹو ہی کو آیا تھا۔ لیکن ان کے ذہن میں ان نوجوانوں سے یہ کام کروانا مقصود نہیں تھا جو بعد میں کوتاہ بین لوگوں نے کرائے۔ بھٹو نے اسلامی نشاۃ الثانیہ کی ابتداء کی طرف پہلا قدم اسلامی کانفرنس کے حوالے سے اٹھایا۔ اس کانفرنس کے سبھی لوگ بھیانک طریقے سے مروائے گئے ہیں۔ موہنجوڈارو کا ہوائی اڈہ صرف اس لئے بنوایا گیا تھا کہ شاہ ایران باقاعدگی سے وہاں آتے تھے۔ در پردہ وہ بھی اس اسلامی تحریک میں شامل تھے۔ انہیں خمینی کے ذریعے اقتدار سے محروم رکھا گیا۔ یہ اور بات کہ خمینی نے ایران آتے ہی امریکہ کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ افغانستان میں روسی اثر و نفوذ کو کم کرنے کے لئے یاسر عرفات کے ساتھ مل کر نوجوانوں کی فوجی ٹریننگ کا جو انتظام بھٹونے کیا تھا، وہی بعد میں طالبان کی صورت نمودار ہوا۔ اسلامی نیوکلیئر قوت کا خواب بھی بھٹو ہی کا تھا۔ سب سے پہلی وزارت مذہبی امور اور قادیانیوں اور شراب پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی کو چاہے کتنا ہی ملکی سیاست کہا جائے‘ ان کے پیچھے ایک مذہبی ذہن موجود ہے۔ اس کے برعکس ضیاء الحق کا مذہبی تصور ایک ملا اور اقتدار پرست شاہ کا سا ہے۔ اس نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے بدترین فرقہ پرستی کو فروغ دیا۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑایا ۔ اگر آپ قاضی عبدالستار کا ناول ’’دار الشکوہ‘‘ پڑھیں تو اتنی حیرت انگیز مماثلتیں دکھائی دیں گی کہ منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ مغلوں کے عروج و زوال کے دو مطالعے بہت اہم ہیں۔ بابر، اور نگزیب کی طرح مذہب کا نعرہ نہیں لگاتا تھا لیکن عظیم انسانی قدروں کے حوالے سے اس کا کردار یہ نکلا کہ جب ہمایوں بیمار ہوا اور کوئی دوا کارگرنہ ہوئی تو کسی نے مشورہ دیا کہ کچھ صدقہ کیا جائے۔ بابر نے کہا بیٹے کے لئے سب سے بڑا صدقہ باپ کی جان ہے، چنانچہ اس نے ہمایوں کی چار پائی کے گرد سات چکر لگائے اور دعا کی کہ خدایا ہمایوں کے بدلے میری جان لے لے۔ خدا کا کرنایہ ہواکہ ہمایوں ٹھیک ہو گیا اور باپ مر گیا۔ یہ مغلوں کا عروج ہے۔ دوسری طرف مذہب کا الاپ کرنے والے اورنگزیب کا یہ حال تھا کہ دستر خان پر پہلے بیٹے کو کہتا تھا کہ وہ کھانا شروع کرے (تا کہ زہر ہو تو پہلے بیٹا مرے) یہ مغلوں کا زوال ہے۔ مذہب کو نعرے کے طور پر استعمال نہ کرنے والے بابر کے بعد ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں جیسے لوگ آئے اور مذہب کے ٹھیکیدار اور نگزیب کے بعد بہادر شاہ ظفر، جہاندار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، رفیع الدولہ، محمد شاہ (رنگیلا) ، احمد شاہ، عالمگیر ثانی، محی السنت شاہ، شاہ عالم ثانی، اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر جیسے لوگ بادشاہ بنے جن میں سے ایک بھی اتنی بڑی مملکت کو چلانے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا چنانچہ صرف ڈیڑھ سو سال (1857ء- 1707ء) میں عظم مملکت صرف دہلی کے شاہی قلعہ تک محدود ہو گئی۔ شہر پر ریذیڈنٹ کا کنٹرول تھا اور بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں کی طرف سے چھے لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ دار الشکوہ حضرت بختیار کا کیؒ اور سرمدؒ جیسے صاحبِ علم لوگوں کا پرستار تھا۔ وہ خود ایک اچھا عالم تھا اور اس کی کتابیں تصوف کے ان پہلوئوں کی نشاندہی کرتی تھیں جنہوں نے اسلام کے تصورِ انسانیت کو بنیاد بنا کر محبت کی فضا قائم کی ہے۔ اس کے برعکس عالمگیر کے فتاویٰ تنگ نظری، جہالت اور رسومات تک محدود ہیں۔ علم اور روحانیت کے حوالہ سے داراشکوہ جس منصب پر فائز ہے وہ ایک مثالی انسان دوست معاشرے کی بنیاد بنتا ہے، لیکن اورنگزیب نے ذاتی اقتدار کے لئے جس مذہب کو اختیار کیا اس میں نہ باپ کی کوئی حیثیت ہے نہ بھائیوں کی۔ ابن انشاء نے خوب کہا ہے کہ عالمگیر نے کوئی نماز قضا نہیں کی اور کسی بھائی کو بھی نہیں چھوڑا۔ مسلمان صوفیا نے برصغیر میں تصوف کے حوالے سے جس روشن خیال مسلم معاشرے کی بنیاد رکھی تھی، اورنگزیب نے اسے ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور درباری ملائوں کی سازشوں سے عظیم مملکت کو زمین بوس کر دیا۔ داراشکوہ اور بھٹو رند تھے لیکن پر خلوص اور روشن خیال۔ اس کے برعکس اورنگزیب اور ضیاء الحق مفاد پرست تھے جن کے نزدیک مذہب کو اپنے لئے استعمال کرنا بری بات نہیں تھی۔ درد نے دار اشکوہ اور بھٹو جیسے رندوں کے بارے میں ہی کہا تھا کہ؎ اپنی ہے یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر اے درد آکے بیعتِ دستِ سبو کریں بھٹو اور ضیاء الحق کا تقابل انہی اصولوں پر کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو نے کچھ اندرونی غلطیوں کے باوجود ملک کو کیا کچھ دیا اور ضیاء الحق نے مذہب کو ذاتی اقتدار کے لئے استعمال کر کے کس طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا اور وہ کچھ بو گیا جس کی فصلیں آئندہ کئی نسلیں کاٹتی رہیں گی۔ (’’عاشقی صبر طلب‘‘ سے مقتبس










      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html
      muzafar ali's Avatar
      Join Date
      Nov 2015
      Posts
      2,772
      Threads
      481
      Thanks
      1,142
      Thanked 1,167 Times in 923 Posts
      Mentioned
      159 Post(s)
      Tagged
      496 Thread(s)
      Rep Power
      12

      Re: بھٹو سیکولر نہیں، مذہب کے قریب تر تھے

      thanks for nice sharing

      Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •