کچھ گزرے وقت کے قصّے ہیں
اب یہی متاع ہے پاس اپنے
اب باقی یہی تو یادیں ہیں
وہ دور اُمنگوں خوشیوں کا
وہ عہد خیالوں خوابوں کا
جو بیت گیا ہے اِک پل میں
اُس عہد کے کتنے ساتھی تھے
سب اِک اِک کرکے چھوٹ گئے
اب کوئی نہیں ہے ساتھ اپنے
اب باقی یہی تو یادیں ہیں
جو ساتھ گزارے تھے موسم
وہ لوٹ کے اب بھی آتے ہیں
اور ماضی میں لے جاتے ہیں
بیتے لمحوں کی یادوں سے
رہ رہ کے جی تڑپاتے ہیں
پھر یہ کہہ کر اُڑ جاتے ہیں
اب کچھ بھی نہیں ہے پاس اپنے
بس گئے دنوں کی یادیں ہیں۔
Bookmarks