وہ دن بھي کتنے اچھے تھے
جب جگنو اچھے لگتے تھے
ساون کي بارشوں ميں
ہم سب بھيگا کرتے تھے
انگلي پکڑ کر ايک دوسرے کي
قدم سے قدم ملاکر چلتے تھے
چاند کي کرنوں تلے ہم سب
کسوٹي کسوٹي کھيلا کرتے تھے
چھپ کر گرم آغوش ميں
مستقبل کے فيصلے کيا کرتے تھے
وہ اسکول سے غير حاضر رہنے کے
بہانے کر کے ٹيچرز کو عاجز کيے کرتے تھے
گرميوں کي تپتي دوپہروں ميں
دوستوں کے سنگ چپکے سے گھر سے نکلا کرتے تھے
پريڈ مس کر کے گراؤنڈ ميں بيٹھ کر
دنيا جہاں کي باتيں کيا کرتے تھے
کتابيں سامنے کھول کر
يادوں ميں کھو جايا کرتے تھے
چھو ٹي چھوٹي باتوں پر روتے
بے سبب ہي ہنسا کرتے تھے
کاش پھر لوٹ آئيں وہ فراغت کے دن
جب وقت گزاري کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے​