فروری 1859ء میں اس کی عمر بارہ سال ہو گئی اور اس نے ملازمت کی تلاش شروع کر دی تا کہ اسے باقاعدہ آمدنی ہو سکے۔ لہٰذااس کے دوستوں نے جو ریلوے میں ملازم تھے، اسے رائے دی کہ وہ شکاگو ڈٹرائٹ اینڈ کینیڈا گرانڈ ٹرنک ریلوے کی اس ٹرین پر اخبار اور پھل بیچا کرے جو ہر روز صبح سات بجے پورٹ ہیورون سے ڈٹرائٹ روانہ ہوتی تھی اور رات کو ساڑھے نو بجے واپس آتی تھی۔ ان دنوں ٹرینوں میں ڈائننگ کار نہیں ہوتی تھی اور لڑکا پورٹ ہیورون اور ڈٹرائٹ کے درمیان تریسٹھ میل کے سفر میں مٹھائی، مکئی کی کھیلیں، پھل اور سینڈوچ بیچ کر کافی منافع کما سکتا تھا۔ ایڈیسن(ال) کو روپے کی شدید ضرورت تھی۔ اگر اس کے پاس روپیہ ہو جائے تو وہ ڈٹرائٹ کے کاریگروں سے ایسے تمام آلات اور سامان تیار کرا سکتا تھا، جو اس نے اپنے سائنسی کام کے لیے خود وضع کیے تھے۔ وہ اپنے کبھی نہ ختم نہ ہونے والے تجربوں کے لیے نئی اور مہنگی کیمیاوی اشیاء بھی خرید سکتا تھا۔گرانڈ ٹرنک ریلوے پر اخبار اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے کے بارے میں ال نے اپنے والدین سے مشورہ کیا۔ اس کے باپ اور ماں دونوں نے اعتراض کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کام کے لیے اس کی عمر ابھی بہت کم تھی۔ اگر وہ سات بجے صبح سے ساڑھے نو بجے رات تک غائب رہے گا، تو اس کی تعلیم میں خلل پڑے گا اور اس نئے کاروبار سے اس کے تحقیقاتی کام میں مدد کی جگہ الٹا نقصان ہو گا۔ اس طرح وہ تجربہ گاہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دے سکے گا۔ال کے پاس اپنے والدین کے ہر اعتراض کا معقول جواب تھا۔ اس نے کہا کہ میں کافی بڑا ہو چکا ہوں۔ میرا وزن نوے پائونڈ کے قریب ہے۔ اس کام میں زیادہ محنت اور دوڑ دھوپ کی ضرورت نہیں ۔ گاڑی پر جانے اور واپس آنے کے دوران مجھے جتنا وقت ملے گا، میں اس میں مطالعہ اور آرام دونوں کر سکتا ہوں۔ بارہ سال کا لڑکا یقیناً اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں ،رسالے اور کتابیں بیچنے کا سیدھا سادہ کام کر سکے۔ میری تعلیم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ پورٹ ہیورون میں جتنی کتابیں مل سکتیں تھیں ،وہ سب میں پڑھ چکا ہوں۔ مجھے ڈٹرائٹ میں ہر روز چھ گھنٹے کی فرصت ہوگی۔ میں وہاں کی پبلک لائبریری میں ایسی کتابیں بھی پڑھ سکتا ہوں، جو میرے اپنے شہر میں نہیں مل سکتیں۔ میں رات کو دو ایک گھنٹے اپنی تجربہ گاہ میں بھی گزار سکتا ہوں اور سوئوں گا اور رہوں گا تو میں گھر ہی میں۔ ال نے یہ جواب اتنے شوق اور اس قدرمتانت سے دیا کہ اس سے متاثر ہو کر اس کے ماں باپ نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے۔اپنا نیا کام شروع کرنے کے لیے ایک دن صبح سویرے پورٹ ہیورون کے سٹیشن پر پہنچا۔ اس کے پاس سینڈوچ، مٹھائیاں، پھلوں اور مکئی کی کھیلوں کے ایک بڑے سے بنڈل کے علاوہ ’’یوتھس کمپینین۔‘‘ ’’ہارپرزمنتھلی میگزین‘‘ اور دوسرے رسالوں کا بہت بڑا پیکٹ بھی تھا۔ سات بجنے سے ذرا پہلے گاڑی سٹیشن کے اندر داخل ہوئی۔ لوہے کے انجن میں سرخ رنگ کے بڑے بڑے پہیے اور گزوں لمبی پیتل کی چمکدار پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ خوش نما انجن کے پیچھے شوخ ذرد رنگ کی خوب صورت مسافر گاڑیاں تھیں۔ہر ڈبے کے باہر کی طرف کھڑکیوں کی قطار کے نیچے سرخ، سبز اور نیلے رنگ میں نیاگرافالز، گریٹ لیک اور دوسرے حسین مناظر کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ (عظیم موجد ایڈیسن کی داستانِ زندگی) ٭…٭…٭
Bookmarks