SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 10 of 23

    Thread: Hum Chalay Tou Humaray............!!!

    Threaded View

    1. #1
      Charagh e Aab...........! www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Mamin Mirza's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Uroos Ul Bilad,Sheher e Qaid.....Karachi..!
      Posts
      2,368
      Threads
      338
      Thanks
      1,026
      Thanked 1,107 Times in 704 Posts
      Mentioned
      346 Post(s)
      Tagged
      3232 Thread(s)
      Rep Power
      60

      Bubble Hum Chalay Tou Humaray............!!!

      !!!ہم چلے تو ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


      بلاشبہ یادیں
      قیمتی ہوتی ہیں اور اگر یادیں کسی ایسی شخصیت یا حوالے سے وابستہ ہوں جو ہماری زندگی میں بے حد اہم اور خاص ہوتو پھر اُن سے جڑی یادیں بھی واقعتا زندگی سے زیادہ بیش قیمت ہوجایا کرتی ہیں۔پھر اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ یادیں مادّی ہیں یا غیر مادّی۔۔۔۔۔!!!
      انسانوں اور ان کی یادوں سے وابستگی اپنی جگہ مگر یہ بھی کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اپنی ان یادوں کے پرچار کو کسی کے واسطے دردِ سری بناڈالیں ۔ذکر ہے نمو بی اور اُن کے دادا
      ابا مرحوم کی ہر دلعزیز اوراب تقریباََ مرحوم شدہ ہڑپن کھٹارا کا۔ہے تو وہ رولس رائس کا کوئی قدیم ماڈل مگر میں نے اُس کی موجودہ حالت کے سبب اُسے ہڑپن کھٹارا کا لقب دے رکھا ہے۔کیونکہ اِس گاڑی کی حالت روز بہ روز کچھ ایسی مخدوش ہوتی جارہی ہے کہ جیسے کراچی میں موجود قدیم عمارتیں دن بہ دن ڈِھتی جارہی ہیں۔۔۔!


      عجب اک بار سا مردار پہیوں نے اُٹھا یا ہے
      اِسے انساں کی بد بختی نے جانے کب بنایا ہے
      نہ ماڈل ہے نہ باڈی ہے نہ پایہ ہے نہ سایہ ہے
      پرندہ جیسے کوئی شکاری مارلایا ہے
      کوئی شے بینِ جسم و جاں معلوم ہوتی ہے
      کسی مرحوم موٹر کا دُھواں معلوم ہوتی ہے
      طبیعت مستقل رہتی ہے ناساز و علیل اِ س کی
      اَٹی رہتی ہے نہر اِس کی پھٹی رہتی ہے جھیل اِس کی
      توانائی قلیل اِس کی تو بینائی بخیل اِس کی
      کہ اِ س کی مدتوں سے کھا چکی عمر طویل اِس کی


      دادا ابا نے یہ گاڑ ی شائد کسی بنئے سے اُدھار لی تھی اور کچھ بعید نہیں کہ اپنی جھوٹی کمشنری کا رُعب جھاڑ کر مفت ہی ہتھیا لی ہو۔۔۔۔۔اِس لئے اِ س میں جتنا مرضی پیڑول ڈلوادیں ،چلنا اِسے کسی سست رفتا ر خراماں قدم کچھوے ہی کی مانند ہے۔۔۔کہ خراماں خراماں اِرم دیکھتے ہیں،ہر چند کہ اِس کا نقشِ قد م نہیں دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔جس طرح خود نمو بی کبھی اپنی جیب کو بلا ضرورت ِ اشد ہلکا کرنا سنگین جرم خیال کرتی ہیں بالکل اِسی طر ح اُن کی یہ شاہکا رمحبوبہ بھی انجن کو زائد خرچ کرنا اپنی شان میں سخت توہین گردانتی ہے۔۔۔۔!


      گریبان چاک یوں انجان پڑا ہے اپنے چھپر میں
      کہ جیسے کوئی کالا مرغ ہو گھی کے کنستر میں
      ولایت سے کسی ”سرجارج ایلن بی “ کے ساتھ آئی
      جوانی لوٹ گئی تو سندھ میں یہ خوش صفات آئی
      وہاں جب عین اِس کی تاریخِ وفات آئی
      نہ جانے کیسے ہاتھ آئی مگر پھر اِن کے ہاتھ آئی
      ہمارے ملک میں انگریز کے اقبا ل کی موٹر
      سن اڑتالیس میں پورے اٹھہتر سال کی موٹر


      اِس گاڑی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اِ س میں ہارن کی کوئی گنجائش اور ضرورت قطعاََ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ اِس کا اک اک پرزہ اپنی موجودگی اور حرکت کا ببانگِ دُہل اَز خود اعلان کرتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی سڑک پر رواں دواں گاڑیوں اور پیدل چلنے والے افراد کو یہ تنبیہہ بھی کہ اِ س گاڑی کے راستے سے الگ ہوجائیں ورنہ اِس شاہکار کو پہنچنے والے نقصان کے عوض آپ پر بھاری بھرکم جرمانہ بھی عائد ہوسکتا ہے اور اِس مہنگے ترین عہدِ زندگانی میں جہاں صبح سے شام کرنا اور زندگانی کی گاڑی کو دھکیلنا ایک شریف النفس انسان کے لئے تقریباََ ناممکن ہوتا جارہاہے اِس قسم کے جرمانے قبل اَز وقت دنیا سے مفارقت کے پروانے ثابت ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔!!!
      اِس گاڑی کی اک بہترین خوبی یہ ہے کہ یہ چلے جس بھی قدر خراماں قدمی سے بیچ سڑک بند نہایت سہولت اور دلبری کے ساتھ ہوجایاکرتی ہے۔اِس شاہکار کے ذریعے آپ دس منٹ کا سفر انشا ءاللہ گھنٹہ بھر میں طے کر لینے کی قوی امید رکھیں۔اگرچہ کہ اِس امید کے بر آنے کے امکانات ناں ہونے کے برابر ہیں کہ اِس شہر کراچی میں سفر دس منٹ پر مشتمل ہونا خا صا مشکل امر ہے۔۔۔۔۔!!!
      اِس گاڑی کو چلانے سے زندگی گزارنے کے بہت سے گُر آجاتے ہیں۔مثال کے طور پر اِ س کی سُبک رفتاری ،خراماں قدمی انسان میں حد درجہ صبر اور برداشت پیدا کرتی ہے۔مستقل مزاجی در آتی ہے اور انسان خاصی حد تک ڈھٹائی بھی سیکھ جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب آس پاس کی گاڑی والے خواتین و حضرات اِس شاہانہ سواری بادِ بہاری بقول خود نمو بی کے ،کی شان میں طلائی تمغے عطا کرنے شروع کریں تو ایک کان تک بھی انھیں رسائی قطعاََ ناں حاصل کرنے دینے اور کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرنے کے لئے جس صفتِ عظیم کی اشد ترین ضرورت پڑتی ہے ،وہ ہے ڈھٹائی ۔جس میں ماشاءاللہ نمو بی خاصی سے زیادہ خود کفیل ہیں۔وہ اِس مقولے پر سختی سے عمل کرتی ہیں کہ میری زندگی میں اپنی مر ضی اور پسند سے جئیوں گی۔۔۔۔۔!!!

      یہ چلتی ہے تو دو طر فہ ندامت ساتھ چلتی ہے
      بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے
      بہن کی التجا ،ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
      بہت کم اِس خرابے کو خراب انجن چلاتا ہے
      عموماََ زورِ دوستا ں ہی کام آتا ہے
      کبھی بیلوں کی پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے
      پکڑ کر بھیجی جاتی ہے،جکڑ کر لائی جاتی ہے
      وہ کہتے ہیں کہ اِ س میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے
      اذیت کو بھی ایک نعمت سمجھ کر شادماں ہونا
      یوں انسان کا مغلوبِ گماں ہونا

      وفا داری اور خلو ص کوئی نمو بی کی اِ س ہڑپن کھٹارا سے سیکھے۔بابا(نمو بی )کے بارہا نمو بی کی کراچی میں عدم موجودگی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اِس گاڑی کو راتوں رات دھکیلوا کر شہر سے کوسوں دور چھڑواچکے ہیں۔۔۔مگر بھلا ہو کراچی کی شہری حکومت کا کہ جو ہر بار ذاتی خر چے پر اِس شاہکار کو واپس درِ دولتِ نمو بی پر چھوڑ گئی ہے۔۔۔!!!
      اَب بات ہوجائے کچھ اِ س گاڑی کی ساخت اور ہیئت کی یعنی شکل و صورت ۔خوف صورت کی اور بقول نمو بی کے ”شہزادیِ حسن “ کے قصیدے کی۔دیکھنے میں دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زنگ آلود بڑا سا لوہے کا کنسترکھڑا ہے۔پاس جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ بے چاری سی معلوم ہوتی قدیم وقتوں کی نشانی ۔مصری ممی نما کوئی گاڑی سی ہے۔صرف پٹیوں کی کمی ہے ورنہ زخم تو بے تحاشہ ہیں۔۔۔!!!
      چھت جگہ جگہ سے اُدھڑ چکی ہے ۔جس میں سے ہوا ،برسات ،دھوپ ،دھول ،مٹی اور آلودگی بناءاجازت وتکلف وافر مقدار میں اندر داخل ہوتے رہتے ہیں۔اِ س سے آپ کو گاڑی کے اندر بھی باہر جیسا ہی ماحول میسر رہتا ہے اور آپ خیالوں کی دنیا میں کھو کر حادثے کا شکار ہونے سے بچے رہتے ہیں۔۔۔!

      بہ طرزِ عاشقانہ دوڑ کر ،بے ہوش ہوجانا
      بہ رنگِ دلبرانہ جھانک کر روپوش ہوجانا
      قدم رکھنے سے پہلے لغز شِ مستا نہ رکھتی ہے
      کہ ہر فرلانگ پر اپنا مسافر خانہ رکھتی ہے
      دمِ رفتار دنیا کا عجیب نقشہ دِکھائی دے
      سڑک بیٹھی ہوئی اور آدمی اُڑتا دِکھائی دے

      دروازوں کے لاک اتنے رحم دل ہیں کہ اگر بند ہوجائیں تو کھُلتے نہیں اور کھل جائیں تو بند نہیں ہوتے۔یعنی اگر آپ باہر ہیں تو اندر داخل ہوکر اپنی زندگی کوخطرے میں ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں اور اگر اندر ہیں تو پھر اندر ہی رہیں کہ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں اور مزید آزمانے کو جی چاہتا ہے۔۔۔!!!

      بمپر اور مڈ گارڈ گئے وقتوں کی کہانیاں بن چکے ہیں ،اِ س لئے یہ معلوم کرنا بے حد مشکل امر ہے کہ گاڑی کا اوپری حصہ کہاں ختم اور نچلا حصہ کہاں سے شروع ہوتاہے ۔پہئیے ایسے دِکھائی پڑتے ہیں کہ جیسے مخمل میں ٹاٹ کا پیوندکیونکہ اِس گاڑی کے اصل پرزہ جات کا حصول و دستیابی بالکل ایسے ہی ہے جیسے زرداری کا ایماندار ہو جانا یا پاکستانی پولیس کا جرائم روکنے میں کامیاب ہو جانا۔۔۔!

      نظامِ زندگی اکثر تہہ و بالا دِکھائی دے
      یہ عالم ہو تو اِ س عالم میں آخر کیا دِکھائی دے
      روانی اِس کی اک طوفانِ وجد و مال ہے گویا
      کہ جو پرزہ ہے وہ ایک بپھرا ہوا قوال ہے گویا
      شکستہ ساز میں بھی محشرِ نغمات رکھتی ہے
      توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی ہے
      پرانے ماڈلوں میں کوئی اونچی ذات رکھتی ہے
      ابھی پچھلی صدی کے بعض پرزہ جات رکھتی ہے

      سیٹ کورز البتہ نمو بی کی رنگین اور شوخ مزاجی کے بھرپور آئینہ دار ہیں ۔تیز نارنجی رنگ کے سیٹ کورز شاید کسی ٹھنڈے علاقے میں آنکھوں کو بھلے معلوم ہوتے ہوں مگر کراچی جیسے شہر میں جہاں صرف چار ماہ گرمی پڑتی ہے ۔باقی کے آٹھ ماہ سخت گرمی پڑتی ہے۔ایسے شوخ رنگ آنکھوں کے لئے سزائے کالا پانی سے بھی بد تر سزائے ناگہانی ہواکرتے ہیں۔۔۔!
      اسٹئیرنگ وہیل کی لمبائی چوڑائی بلکہ حدودِ اربعہ نموبی کی زبان کے حجم کی طرح ہی کافی وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔اِس لئے نمو بی اسٹئیرنگ وہیل کو بالکل اتنی ہی مہارت سے قابو کرتی ہیں جتنی مہارت سے اپنی زبان کے جوہر دِکھلاتی ہیں اور کچھ ناں کہہ کر بھی سب کچھ کہہ جاتی ہیں۔۔۔!

      غمِ دوراں سے اب تو یہ بھی نوبت آگئی اکثر
      کسی مر غی سے ٹکرائی تو خود چکرا گئی اکثر
      ہزاروں حادثے دیکھے ہیں زمانی بھی مکانی بھی
      بہت سے روگ پالے ہیں زراہِ قدر دانی بھی

      اپنی اِس شاہانہ سواری بادِ بہاری کے سبب نمو بی میرے پورے محلے میں ایسے ہی مشہور ہیں جیسے القاعدہ امریکہ میں۔جیسے ہی محترمہ اپنی ہڑپن کھٹارا کے سنگ رینگتے نظاروں کولئے موڑ سے گلی میں داخل ہوتی ہیں ،بناءکہے بھی سب ہی جان لیتے ہیں کہ مشکل میں ہے ساراجہاںدھوم ہے آج یہاں ۔۔۔آئی ہے وہ شہہ کوبہ۔۔۔!
      ایسا نہیں ہے کہ نمو بی کے پاس اچھی گاڑی نہیں ہے یا وہ اچھی گاڑی لے نہیں سکتیں۔میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ وہ اپنے بابا سے بضد ہوکر کچھ عرصے کے بعد گاڑی تبدیل کر لیتی ہیں۔اپنی اِس شاہکا ر محبوبہ کا استعمال محترمہ نے صرف میرے گھر آمد کے لئے ہی مخصوص کر رکھا ہے ۔صرف اِس لئے کہ وہ یادوں کو سنجو کر ،سنبھال کر رکھنے کی عادی ہیں۔اپنی حقیقت کو بھولنے کی روادار نہیں اور اونچائی پر پہنچ کر بھی زمیں پر مضبوطی سے جمے رہنے اور مٹی سے رشتہ بحال رکھنے کی قائل ہیں۔۔۔!
      جن سے وہ عشق کر تی ہیں ،خواہ وہ انسان ہوں یا کوئی مادی شے اُسے بہر صورت اپنے قریب دیکھنا چاہتی ہیں۔لاپروائی اور بے نیازی ظاہر کرتی ہیں لیکن اپنی عزیز ترین ہستیوں کا خیال خود سے بڑھ کر رکھتی ہیں۔زُبان سے جو بھی کہہ لیں دل میں کوئی میل نہیں رکھتیں ۔اِس لئے اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور دردِسری کے باوجود نمو بی اور !!!اُن کی ہڑپن کھٹارا ،بہ سروچشم۔۔۔مگرپھر بھی۔۔۔

      خجل اِس سخت جانی پر ہے مرگِ ناگہانی بھی
      خداوند ناں کوئی چیز ہو اتنی پرانی بھی
      کھبی وقتِ خرُام آیا تو ٹائر کا سلام آیا
      تھم اے رہروکہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      مامن مرزا



      Last edited by Mamin Mirza; 01-24-2016 at 10:59 AM.
      !میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔

    2. The Following 3 Users Say Thank You to Mamin Mirza For This Useful Post:

      Arosa Hya (01-24-2016),intelligent086 (01-24-2016),muzafar ali (01-24-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •