فخر بلوچ: سرائیکی خطہ ہمیشہ آپ پر فخر کرے گا وسیب کے دکھوں کو آواز دینے والے نامور براڈکاسٹر20 جنوری کو ہم سے جدا ہو گئے
رضی الدین رضی
بعض شخصیات کسی بھی شہر اور کسی بھی خطے کا مان ہوتی ہیں۔ یہ ہستیاں جب تک ہمارے درمیان موجود ہوتی ہیں ہمیں ان کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب یہ چلی جاتی ہیں تو ایسا خلاء چھوڑ جاتی ہیں جسے پر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ فخر بلوچ بھی ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ سرائیکی علاقے کی شناخت اور یہاں ادب، ثقافت اور فنون لطیفہ کی ترویج کے لئے جو خدمات انہوں نے سرانجام دیں وہ کم لوگوں کے حصے میں ہی آئی ہوں گی۔ ایک درویش صفت انسان، ایک مٹی ہوئی شخصیت، فنون لطیفہ کے ساتھ وابستگی رکھنے والی ہستی، 20 جنوری 2016ء کو فخر بلوچ ہم سے جدا ہوئے تو احساس ہوا کہ وسیب ایک قدآور شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔27 دسمبر 1946ء کو راجن پور کی بستی سکھانی والا میںپیدا ہونے والے فخر بلوچ کا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا لیکن انہوں نے مسلسل جدوجہد کے ذریعے وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے ملتان آ گئے۔ زمانہ ٔ طالب علمی میں ہی انہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو تسلیم کروایا۔ 60ء کے عشرے میں ایوب خان کا دور اقتدار تھا اور فخر بلوچ ایمرسن کالج ملتان میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو فخر بلوچ نے ملتان میں طالب علموں کی قیادت کی۔ ایمرسن کالج ایوب خان کے خلاف تحریک کا مرکز قرار پایا۔ ملتان کی سڑکیں آمریت کے خلاف نعروں سے گونج اٹھیں۔ اسی دوران چوک کچہری کے قریب جودت کامران کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس فائرنگ سے شہید ہونے والے اس طالب علم کی یادگار آج بھی کچہری روڈ پر موجود ہے۔ اس واقعہ کے بعد سیاسی کارکنوں پر مظالم کی انتہا کر دی گئی۔ فخر بلوچ بھی جاوید ہاشمی سمیت اس دور کے طالب علم رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کر لئے گئے۔ ایمرسن کالج میں تعلیم کے دوران نامور ماہر تعلیم اور نقاد ڈاکٹر انوار احمد اور معروف شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید فخر بلوچ کے ہم جماعت تھے۔ ان کی رفاقت میں فخر بلوچ کو شعر و ادب اور فنون لطیفہ سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ انہوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد بھی جاری رکھی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہو گئے۔ ایم اے اردو کرنے کے فوراً بعد وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوئے اور ڈیوٹی آفیسر کی حیثیت سے چارج سنبھالا۔ اسی دوران ملتان میں ریڈیو پاکستان کا آغاز ہوا اور فخر بلوچ کو پروڈیوسر کے عہدے پر ترقی دے کر ملتان بھیج دیا گیا۔ ڈیوٹی آفیسر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کرنے والے فخر بلوچ نے اپنی انتھک محنت اور بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر براڈکاسٹنگ کے شعبے میں بھرپور ترقی کی۔ وہ نہ صرف یہ کہ ریڈیو پاکستان بہاولپور، اسلام آباد اور حیدر آباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے بلکہ کنٹرولر ہومز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ملتان اور بہاولپور میں پروڈیوسر، سینئر پروڈیوسر اور دیگر حیثیتوں میں فرائض انجام دیتے ہوئے انہوں نے اس خطے کی ثقافت اور تہذیب کو ریڈیو کے ذریعے اجاگر کیا۔ بہت سے گلوکاروں اور صداکاروں کو ریڈیو کے ذریعے متعارف کرایا۔ ملتان میں وہ ایک طویل عرصہ تک ڈرامے اور موسیقی کے شعبے سے منسلک رہے۔ اس کے علاوہ صداکار کی حیثیت سے بھی انہوں نے ’’جمہور دی آواز‘‘ جیسے مقبول ترین پروگرام میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فخر بلوچ کی بے چین روح کو قرار نہ آیا۔ مائیک ان کی زندگی تھی۔ انہوں نے اس دوران نہ صرف یہ کہ نئے لوگوں کی تربیت کی بلکہ ملتان میں ایک نجی ایف ایم چینل سے پروگرام منیجر کی حیثیت سے وابستگی اختیار کئے رکھی۔ فخر بلوچ کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے تینوں بیٹے براڈکاسٹنگ اور فنون لطیفہ کے شعبوں سے منسلک ہیں جن میں کاشف بلوچ اس شعبے میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں اور اپنے والد کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ فخر بلوچ جیسے لوگ قابل قدر ہیں کہ جو وراثت میں اپنے بچوں کو اپنے خواب د ے کر جاتے ہیں کہ وہ ان کی تعبیر تلاش کر سکیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو دھرتی کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتے رہے اور آج دھرتی ان کے ساتھ وابستگی پر فخر کرتی ہے۔ ٭…٭…٭
Bookmarks