مجرابات یوسفی




سلیم الرحمن
مشتاق احمد یوسفی کا کاٹا پانی نہیں مانگتا، آب گم، آب گم پکارتا ہے۔ یہ تشنگی حق بجانب ہے۔ بقول یوسفی، مطبوعہ ’’آبِ گم‘‘ صرف نصف ہے۔ باقی نصف کو، جسے نصف بہتر کہنا مناسب ہوگا یا نہیں، شائع ہونا ہے۔ خدا جانے اس کی اشاعت کی نوبت کب آئے گی۔ انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھک گئیں۔ ’’آرائشِ جمال‘‘ سے کبھی فارغ بھی ہو جانا چاہیے۔ کمال پسندی بجا، معیار قائم رکھنے کی خواہش برحق، لیکن جو یوسفی نثر کے بسمل ہیں انہیں ترسانے سے کیا حاصل؟ آپ نے دو اونچی عمارتوں یا چٹانوں کے درمیان میں تنے ہوئے رسّے پر چلنے والے کرتب بازوں کو دیکھا ہوگا۔ توازن برقرار رکھنے میں کیا کمال حاصل ہوتا ہے۔ کس طرح پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو یہی اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اب گرے کے گرے، لیکن جو اس طرح کی جوکھم بازی کی ٹھان لیں ،ان کے قدم غلط کب پڑھتے ہیں۔یوسفی کی کتابیں پڑھتے ہوے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ وہ تنے ہوے رسّے پر چل رہے ہیں۔ ہر جملہ ترشا ترشایا، چْھوٹ دیتا ہوا، جس کی نوک پلک نہ جانے کتنی مرتبہ سنواری گئی ہوگی۔ ہر جملے کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر آخری شکل دینا، لفظوں کو ادل بدل کے تفنن کے نئے سامان فراہم کرنا، نثر کی آہستہ خرامی، ایسا نرم بہاؤ جس میں ننھے ننھے بھنور پڑتے ہوئے۔ پڑھنے والے غوطے کھا کر حیران۔ نثر کو کندن بنانے والے کی نظر کبھی بادلوں پر، کبھی تماشائیوں پر(یا قارئین کہہ لیجیے)۔ یوسفی کی طرح نہ کوئی چل سکتا ہے نہ جملہ بہ جملہ توازن برقرار رکھنے پر قادر ہے۔ اُن کی ہر نئی کتاب کو پڑھتے ہوے یہی احساس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ رسّا زیادہ بلندی پر تنا ہوا ہے اور جو فاصلہ طے کرنا مقصود ہے، وہ بھی طویل تر ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا اس دفعہ انہوں نے خود کو بڑی آزمائش میں نہیں ڈالا؟ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور یوسفی بڑے اطمینان سے دوسرے سرے پر پہنچ کر دھیمی، شفیق مسکراہٹ سے اپنے چاہنے والوں کو الوداع کہتے ہیں۔ اُن کا سانس تک نہیں چڑھتا۔ ہم سب کو اشتیاق رہتا ہے کہ وہ نیا کرتب کب دکھائیں گے۔ ثقہ حضرات مذکور بالا خیال آرائی پر ناک بھوں چڑھائیں گے۔ کہیں گے، لیجیے، ہم سب کے محترم مزاح نگار کو نٹ بنادیا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ادب کی اقلیم میں وہی اونچے مقام پر فائز ہوتے ہیں ،جو بڑھ چڑھ کر خطرات مول لینے کو تیار ہوں، جو زبان، اُسلوب، ہیئت اور اصناف کی تمام شریفانہ جکڑ بندیوں کو توڑ کر ان سے ایسا سلوک کریں، جو پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ بنے بنائے سانچوں کو رد کر کے من مانی کرتے چلے جائیں۔ یہی تازہ کاری ہے، یہی پُرکاری ہے، خواہ سادہ ہو یا پیچیدہ، نیرنگ سے عبارت ہو یا بے رنگ ہو۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یوسفی نے اُردو نثر اور اُردو مزاح میں ایسی کون سی تبدیلی پیدا کی کہ وہ منفرد نظر آنے لگے؟ پطرس نے مزاح کو نئے ذائقے سے روشناس کیا۔ ابن ِ انشا قلم برداشتہ لکھتے تھے اور کیا خوب لکھتے تھے۔ وہ رسّوں پر چلنے والوں میں سے نہ تھے۔ سو میٹر دوڑ کے ریکارڈ توڑ دھاوک تھے۔ مشفق خواجہ کے کمالات کالمانہ تھے۔ چٹکیاں غضب کی لیتے تھے۔ میراتھون دوڑاک یوسفی ہی ہیں۔ یوسفی نے اپنے پہلے مجموعے ’’چراغ تلے‘‘ میں جائزہ لیا کہ مزاح کی صنف میں کیا کیا امکانات ہیں اور وہ کس حد تک ان سے نباہ کر سکتے ہیں اور کہاں انہیں کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا پڑے گا، جہاں مزاح کی پٹ تو باقی رہے، مگر تحریر فکشن سے قریب تر ہوتی جائے ،یعنی فکشن کے اردگرد کاوے کاٹنے کے باوجود اس پر مزاحیہ مضمون، خاکے، افسانے یا آپ بیتی کا گمان نہ ہو بلکہ وہ ایک نئی طرح کا بیانیہ بن جائے جو مختلف رنگوں کو جذب کر کے التباس پیدا کرتا رہے۔ یوسفی کو معلوم تھا کہ وہ نہ تو لارنس سٹرن کے ’’ٹرس ٹریم شینڈی‘‘ جیسا صنف پچھاڑ کرشمہ دکھانا چاہتے ہیں نہ رابلے کے تتبع میں ناول کو نیم استہزائیہ نیم طنزیہ ہڑبونگ کا روپ دینے کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔ ان کے پاس زبان بھی ہے، اظہار کی قوت اور تخیل کی فراوانی بھی، لیکن انہوں نے اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ جب ان کا دوسرا مجموعہ ’’خاکم بدہن‘‘ سامنے آیا تو صورت ِحال اور واضح ہوئی۔ اس کے کم از کم دو مندرجات ’’سیزر، ماتا ہری اور مرزا‘‘ اور ’’پروفیسر‘‘ افسانوں کی حدود میں قدم رکھتے نظر آئے، لیکن ان کی ماہیت سیمیائی سی تھی۔ ان پر کبھی افسانے کا گمان ہوتا، کبھی آپ بیتی کا، کبھی مزاح آرائی کا۔ پھسلواں سی صنف جسے کوئی نیا عنوان دینے کی ضرورت ہے۔ تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ تو بظاہر تھی ہی ہڈ بیتی۔ معلوم نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ، لیکن غرض آم کھانے سے ہونی چاہیے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ چوتھے مجموعے ’’آبِ گم‘‘ میں آخر کار یوسفی نے اعتراف کر ہی لیا کہ ’’متذکرہ تحریریں اپنی ساخت، ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے، مونتاڑ اور پھیلاؤ کے لحاظ سے، ناول سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ قریب ضرور ہیں، لیکن صفحے صفحے پر اپنی آزادی کی دعوے دار کہ ناول ہم میں سما سکتا ہے۔ ہم ناول میں نہیں سمائیں گی۔ ’’آبِ گم‘‘ کو شائع ہوئے چوتھائی صدی گزر چکی۔ دنیا کچھ کی کچھ ہو چلی۔ کتاب کا نصف آخر سامنے نہ آیا۔ کیا یوسفی کوئی نیا تجربہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یوسفی کے ہاں تمام چھوٹے بڑے کردار کسی نہ کسی لحاظ سے خبطی نظر آتے ہیں ،تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ راوی عیب جو یا کٹکھنا ہے۔ اصل میں وہ باریک بین ہے۔ آپ جس فرد کا بھی بنظرِ غور جائزہ لیں اس کا خبط یا سنکی پن نمایاں ہو کر سامنے آجائے گا۔ یہ ٹیڑھ انسان کی سرشت میں ہے۔ یہ نہ ہو تو بیشتر افراد کل مانس معلوم ہونے لگیں۔ ایک عجیب انداز سے، جس کی توجیہہ ممکن نہیں، یوسفی کی یہ نیم فکشنی دنیا مردوں کی دنیا ہے۔ عورتوں کا گزر اس میں برائے نام ہے۔ کیا عورتیں خبطی نہیں ہوتیں یا یوسفی نے ہاتھ ہولا رکھا ہے؟