جیون رُت کی سختی بے موسم لگتی ہے
کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہےصبحِ سفر یادوں میں اُترتی ہے یوں جیسےرفتہ رفتہ رات کی چادر نم لگتی ہےسوچیں خلق کے حق میں اچّھا سوچنے والےخلق اُنہی سے آخر کیوں برہم لگتی ہےان سے توقّع داد کی ہم کیا رکھیں جن کےبات لبوں کے بیچ سے پھوٹی سم لگتی ہےبات فقط اک لمبی دیر گزرنے کی ہےجگہ جگہ پر کیا کیا کھوپڑی، خم لگتی ہےبَیری رات کے آخر میں جو جا کے بہم ہوآنکھ کنارے اٹکی وہ شبنم لگتی ہےکچھ تو اندھیرا بھی خاصا گمبھیر ہوا ہےکچھ ماجدؔ لَو دیپ کی بھی مدّھم لگتی ہے٭٭٭
Bookmarks