خاک اچھال بھی دے تو دُور خلا میں ، تنبو تانیں گے
شاخِ شجر سے ٹوٹ گریں گے ،ہار نہ لیکن مانیں گےہم درویش ہیں شاہ نہیں ہیں ، حرص زدہ گمرہ نہیںنوکِ زبان پر بھی وہی ہوگا، جو کچھ جی میں ٹھانیں گےدھُوپ کے تِیر ہوں یا، صحرائی ریت کی قاتل کنکریاںجیتے جی جو تن پر برسا اُسے پھُہار ہی جانیں گےدیکھ چکے ہم سا دہ مزاجی آدم کی ، لیکن اب تواوّل دن سے جو بھی ملا شیطان اُسے پہچانیں گے٭٭٭
Bookmarks