حلقے سے میرا تعلق
رشید امجد
حلقۂ اربابِ ذوق کے ساتھ ایک گہرا تعلق تو میرے لئے ہمیشہ ماں کی طرح مقدس رہا ہے کہ میری ساری ادبی تربیت وہیں ہوئی ہے اور جو دو چار الٹے سیدھے لفظ لکھنا آتے ہیں، وہ میں نے حلقہ ہی سے سیکھے ہیں۔ حلقہ کی ایک اور عطا، برداشت اور رواداری ہے۔ یہ ایک ایسی ٹریننگ ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں میرے کام آئی۔ نوے کی دہائی تک حلقہ پر ہمارا اثر قائم رہا، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ حلقہ کی ساری سیاست میری ذات کے گرد گھومتی تھی تو یہ کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔ ہر سال حلقہ کے عہدیداروں کا فیصلہ میں کرتا تھا اور دوست ساتھ دیتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ہمارا مضبوط گروپ کمزور ہونا شروع ہو گیا ۔ میری شخصیت میں نمایاں ہونے کا پہلو نہیں، میں تو محفل میں چھپ کر پیچھے بیٹھنے والوں میں ہوں۔ اسی وجہ سے میں کسی تقریب کا صدر یا مہمانِ خصوصی بننے سے انکار کرتا ہوں کہ میں لکھ کر تو پڑھ سکتا ہوں، مجمع کے سامنے بول نہیں سکتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں استاد ہوں، پچاس ساٹھ لڑکوں کی کلاس کا سامنا کر لیتا ہوں لیکن کسی تقریب میں یہ حوصلہ نہیں ہوتا۔ زندگی میں میں نے دو چار تقاریب میں صدر یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ہے، ان میں سے تین تقاریب کرنل مقبول حسین کی کتابوں کی تھیں۔ مجھے خود حیرت ہے کہ میں مان کیسے گیا۔ معلوم نہیں کرنل صاحب کی شخصیت میں کیا خوبی ہے کہ جب انہوں نے مجھے کہا کہ ’’میرے شعری مجموعہ کی رونمائی ہے اور آپ نے صدارت کرنا ہے ’’تو میں کچھ نہ بولا۔ میرا خیال تھا کہ عین موقع پر انکار کردوں گا یا جائوں گا ہی نہیں لیکن میں چلا گیا اور الٹے سیدھے دو چار لفظ بھی بول آیا۔ اگلی بارپھر یہی ہوا۔ (عاشقی صبر طلب
Bookmarks