اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہیوہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہیسفید بال ہمارے وہی، خضاب وہیردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہےیہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہیفرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجددل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی ٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
View Tag Cloud
Forum Rules
Bookmarks