مرزا غالب ؔ کے لاشعور میں یہ احساس پیوست تھا کہ اسے ’’سوختہ ساماں‘‘ بنا کر عالم آب و گل میں پھینک دیا گیا ہے ۔یہ وجودی طرز احساس اس کی زندگی میں نمایاں ہے ۔اس کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ سوختہ سامانی کے دائر ے سے نجات کیونکر حاصل کر سکتا ہے ؟شعر و شاعری کی فطری صلاحیت نے اسے سوختہ سامانی سے گلو خلاصی کا راستا دکھایا ۔ مرزا غالب کے ذہن میں زندگی بھر اُمید و یاس کی کشمکش کا نہ ختم ہونے والا شور برپا رہا مگر یہ عمل تخلیق کا فیضان تھا کہ زندگی کے ہر بحران اور پُر آشوب دور میں اس کے تزکیہ ء نفس کا سامان فراہم ہوتا رہا ،غم و الم کے جا ن گسل حملوں کے خلاف اس کا خامئہ سخن ڈھال کا کام کرتا رہا ۔ غالبؔ کی غزل میں دیوانگی اور جنوں کی کیفیات اس وقت چاک گریبانی پر آمادہ ہو تی ہیں جب اس کا ’’Persona‘‘بغاوت کا اظہار کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے ۔چونکہ مرزا غالب کی شعر ی انا کو اوسط درجے کے شعرا مجروح کرتے رہے اس لیے جنوں اور دیوانگی ان کے لیے سامان عشرت بن گئے ۔بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحر اکی وسعت بھی جنوں کے مظاہر ے کے لیے نا کافی ثابت ہوتی ہے اور شاعر شکوہ وشکایت کے انداز میں پکار اُٹھتا ہے ۔ ؎شوریدگی کے ہا تھ سے سرہے وبا ل دوش صحر ا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں غالبؔ کو شوخ اور بھڑکیلے رنگوں سے کوئی رغبت نہیں ۔رنگ اور جلوے اس کے ہاں خارجی دنیا سے تعلق توڑ کر داخلی دنیا سے تعلق جو ڑ لیتے ہیں۔غالبؔ نے حسن کے گوناگوں جلووں سے متاثر ہو کر داخلی تاثرات کشید کیے ہیں جن سے سرشاری کی کیفیات جنم لیتی ہیں ۔یہ عمل قطعی داخلی نفسیات کی عکاسی کر تا ہے ۔ ؎سادگی وپُر کاری ،بے خودی و ہشیاری حسن کو تفافل میں جرات آزما پایا غالب کی شعری بساط پر ہم اس کے محبوب کا سراپا نہیں دیکھ سکتے ۔وہ براہ راست سراپا نگاری نہیں کرتے بلکہ حسن کے جلوے سے تخلیق ہونے والی کیفیات کو تمثالی انداز میں پیش کرتے ہیں ۔مرزا غالب کی ساری زندگی بحرانوں میں بسر ہوئی لیکن ان کی شاعری میں غم کا اظہار دانش و رانہ انداز میں ہو اہے ۔زندگی کے المیے ان کے ہاں ارسطو کا فلسفیانہ رنگ لے کر اُبھر تے ہیں ۔جب بھی غالب کے ہاں غم کی کوئی کیفیت جنم لیتی ہے وہ کسی نہ کسی تمثال میں ڈھل کر جلوہ گر ہوتی ہے ۔ ؎رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا یوں تو غالبؔ کی ساری زندگی نفسیاتی کشمکش سے عبارت ہے مگر آخری دور میں زوال کے شدائد نے اسے عظمت و شوکت اور قوت سے یکسرمحروم کر دیا ۔اسے ہر طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔غالبؔؔ کے ہاں شکست ذات اور بے کسی کی جو شکلیں بنتی ہیں وہ گھر کی ویرانی سے صحرا کی ویرانی تک پھیل جاتی ہیں ۔ان کے سارے تلازمے اپنی ذات کی ویرانی کا دانش ورانہ مظہر ہیں ۔ ؎نے گل نغمہ ہوں نہ پردہ ئِ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ آخر ی عمر میں غالب ؔ نے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔غالبؔ کی شاعری شکست ذات کا دانش ورانہ نغمہ ہے جو اس کی داخلی و خارجی نفسیاتی کشمکش کا مظہر ہے اس کشمکش کے منظر نا مے داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی ۔غالبؔ ہمیشہ ان مظاہر شکست کو اپنی تخلیق کی لازوال توانائی کا وسیلہ بناتے رہے ۔یہی تو ترفیح (Cathorsis) کا عمل ہے جو معجزے سے کم نہیں ہوتا ۔مرزا غالبؔ نے شکست آرزو کا حل کثرت آرزو میں دیکھ کر اپنی کشمکش کو تسکین دی ۔اگرچہ زندگی میں انہیں موت کا کھٹکا لگا رہا ۔قفسِ عنصر ی سے روح کی پرواز کے وقت بھی رنگ زرد تھا ۔ ؎ تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہو ا اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا شعلہء آرزو اور تازہ بہ تازہ خواہشات کے روشن الائو نے غالبؔ کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھا ۔طلب ِزیست کی بے پایاںحرارت نے اسے زندگی کے قریب تر رکھا ۔مگر پنشن کا مقدمہ غالبؔ کے لیے دیوارِ گریہ ثابت ہوا ۔موت سے چند برس پہلے تک وہ دیوارِ گریہ کے سامنے مجسم فریادی بن کر کھڑا رہا ۔سوال یہ ہے کہ دیوار ِگر یہ نے غالب کو مایوس کیا یا پھر اُمید افزا ء سامان فراہم کیا ۔ ؎نہ لائے شوخی ء اندیشہ رنج تا بِ نومیدی کف ِ افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے جب زیست کی بے مقصدیت کا منفی دبائو غالبؔ کو اعصاب زدہ کر دیتا ہے تو اس کے اندر سے ایک نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے ۔وہ زندگی کے مروجہ اصولوں کو تو ڑ کر ایک ایسی دنیا آباد کر لیتا جو اس کے خواب و خیال میں جلوہ گر تھی ۔خواب در خواب کی یہ توانائی اسے ناکامیوں کا حصار توڑنے میں مد د دیتی ہے ۔ (پروفیسر نواز صدیقی کی کتاب،غالب خستہ کے بغیر،سے اقتباس) ٭…٭…٭
Bookmarks