میرباقر علی کی داستان گوئی
ایک روز شاہ جہاں، تیسرے پہر کا وقت ہے، شمس برج میں رونق افروز ہے۔ سامنے جمنابہہ رہی ہے اور اپنے لبِ ساحل سے قلعے کی پابوسی کر رہی ہے۔ وہ زمانہ، جمنا کا چڑھائو ہے۔ بقول شخصے مچھلی پلٹے موجیں آرہی ہیںاور اب تو اس قلعے سے جمنا کا دل بھی پھٹ گیا اور قدم آ گے سے پیچھے ہٹ گیا اور اسی غم میں سوکھ کر کاٹنا ہو گئی۔ اس صورت میں جمنا کو دریا کہنا پھبتا نہیں اور یہی حالت رہی تو کون اسے دریا کہے گا۔ غرض شاہ جہاں بیٹھا ہے۔ اس وقت موسم بھی خوش گوار ہے۔ شاہ جہاں کے مزاج میں فرحت ہے کہ سعداللہ خاں حاضر ہوا۔ ضرور ی کاغذات پیش ہوئے۔ شاہ نے دستخط کیے۔ سعد اللہ خاں نے بستہ باندھا اور بادشاہ کو خوش دیکھ کر ذرا ٹھٹکا۔ شاہ جہاں تو بادشاہ ہے اور بادشاہ تمام علوم و فنون کا جاننے والا ہوتا ہے۔ سعد اللہ خاں کا ٹھیرنا تھا کہ شاہ جہاں سمجھ گیا۔ خبریں تو برابر گزرتی ہی رہتی ہیں کہ آج سردار دکن کا یہ حال ہے اور سعد اللہ خاں کی معرفت دریافت حال چاہتا ہے کہ عالم پناہ کو میری طرف سے ایسا خیال کیوں ہے۔ شاہ جہاں نے سعداللہ خاں سے فرمایا کہ ’’کیا سر دار دکن کے متعلق تم کو کچھ دریافت کرنا ہے؟‘‘ سعد اللہ خاں نے دست بستہ عرض کی کہ ’’جہاں پناہ روشن ضمیر ہیں۔ پھر عرض کرنا بے محل۔ ‘‘ بادشاہ نے فرمایا کہ ’’نہیں، اس سے کہہ دو کہ کچھ ملال نہیں۔ اس وقت مابدولت کو گردن میں کھجلی اٹھی تھی۔ اس وجہ سے ذرا توجہ اُس طرف ہوئی ورنہ کوئی ملال نہیں اور اتنے عرصے تک جو اظہار نہ فرمایا صرف اس کی عقیدت کا امتحان تھا۔ اچھا، اس سے کہو کہ معلوم ہوا وہ عقیدت کیش ہے۔ ایک پہر تک جواہرخانۂ شاہی سے جوشے پسند آئے وہ لے جائے۔‘‘ غرض سعداللہ یہ حکم شاہی سن کر روانہ ہوا اور سردار سے جا کر کہا: بس یہ سن کر سردار دکن روانہ ہوا۔ جواہر خانے میں آیا۔ گو اس کو بھی اللہ نے سب کچھ دیا ہے، لیکن اس جواہر خانے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور جواہر پیش ہونے شروع ہوئے۔ یہ جس شے کو پسند کرتا ہے اس کے آدمی لے لیتے ہیں۔ اب ایک عرصے کے بعد داروغۂ جواہر خانہ نے عرض کی کہ ’’جناب، یہ کیا پسند فرما رہے ہیں؟ ٹھیریے، میں لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر داروغہ اندر گیا اور ایک صندوقچہ لایا، جس کا غلاف کم خواب کا، صندوقچہ سونے کا۔ اب اس داروغہ نے صندوقچہ کھولا اور ایک چغہ یا سر پیچ نکالا ،لیکن چغے اور سر پیچ میں فرق ہے۔ سر پیچ بھی پگڑی کے اوپر چار انگل چوڑا اور گزسوا گز لمبا لپیٹا جاتا ہے اور چغہ بھی پگڑی کے اوپر لپٹتا ہے، لیکن یہ جواہر نگار ہوتا ہے اور بیچ میں اس چغے کے ایک کیری ہوتی ہے ،لیکن اس چغے کے جواہر کا تو کیا پوچھنا ہے۔ صرف اس چغے کی کیری، جو نوانچ لمبی اور چار انچ چوڑی، ایک پرکالۂ زمردی تھی، جس وقت بادشاہ اس چغے کو باندھ کر ذرا سر کو خم کرتا تھا تو تمام لباس شاہی سبز ہو جاتا تھا۔سردار دکن یہ دیکھ کر جواہر خانے کے داروغہ سے کہا: ’’نمک حرام، رکھ اسے وہیں جہاں سے لایا ہے۔ یہ شے حضور کے سرِ مبارک پر لگانے کی ہے۔ اگر میں اس کو لے بھی گیا تو کہاں لگائوں گا؟ ہاں، اگر کوئی شے پائے مبارک پر لگانے کی ہو تووہ لا کہ جس کو میں اپنے سر پر لگا کر فخر کروں۔ ‘‘ پس شاہ جہاں کو یہ خبر فوری پہنچی۔ اس وقت شاہ جہاں وضو کر رہے تھے۔ یہ سن کر بادشاہ مسکرائے اور حکم دیا کہ کاغذ اور قلم دوات لائو۔ چنانچہ کاغذ اور قلم دوات آئی۔ شاہ جہاں نے حکم لکھا کہ ’’ایک پہر اور ‘‘۔ بس اب کیا تھا، یہ سردار مالا مال ہو کر نکلا۔ یہ خبر حضرت عالم گیر کو ہوئی۔ یہ تو عالم گیرہی تھے۔ تمام عالم پر قبضہ جمانا چاہتے تھے،فرمایا: ’’غضب کیا باوا جان نے۔ دہلی کو لٹوادیا۔ اب دہلی میں کیا دھرا ہے۔ ‘‘ یہ اسی نظر کی غلطی کا نتیجہ ہوا کہ دکن کی مہم در پیش ہوئی۔اس لیے مناسب ہے کہ سماعت کو وسیع کر کہ سننے میں ہزاروں نعمتیں پوشیدہ ہیں۔ قدرت کی طرف متوجہ ہو کر کان کے پردے کھلیں۔ قدرت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ جو کچھ ہے قصور اپنا ہی ہے۔ قدرت کا اس میں کیا قصور ہے کہ ہم اپنے اعضا سے کام نہ لیں اور الزام قدرت پر رکھیں؟ قدرت کے قانون تو کچھ الگ ہی ہیں۔ پہلے ہم اپنے دماغ کی تن درستی اور صحت کی طرف متوجہ ہوں، پھر قدرت ہمارے ساتھ ہے۔ قدرت تو اہل کو دیتی ہے، نا اہل کو نہیں۔ (کتاب ’’کانایاتی ‘‘ ناشر: مجلس ترقی ِ ادب) ٭…٭…٭
Bookmarks