google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 1 of 1

    Thread: فوٹو جرنلزم

    Threaded View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      فوٹو جرنلزم



      فوٹو جرنلزم



      @Mamin Mirza

      فائزہ نذیر احمد
      کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزار لفظوں سے بہتر ابلاغ کرتی ہے۔کبھی کبھی تو معمولی واقعہ یا کوئی تصویر ساری دنیا کو ہلاکے رکھ دیتی ہے اورخواب غفلت میں سوئے ہوئے جاگ جاتے ہیں اور یہ معمولی واقعہ غیر معمولی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے۔ گذشتہ دنوں ساحل سمندر پر پڑی 3سالہ ایلان کی لاش نے مہذب دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور سمندر کی بے رحم موجوں کی گود میں ننھے مہاجر ایلان کی اوندھی پڑی لاش نے سنگ دلوں کو بھی رولا دیا۔جو کام لوگوں کی آہیں اور سفارت کاری کے تمام حربے نہ کر سکے وہ ایلان کے مردہ جسم نے کر دیا۔ اس ننھی لاش نے بے حس انسانیت کے دعوی داروں کو جگا دیا اور وہ لاکھوں بے وطنوں کو انسانیت کے نام پر پناہ دینے پرراضی ہوئے۔ ایلان کی موت سے پہلے شام سے نکلنے والے مہاجرین نامعلوم منزلوں کی طرف بڑھے تو چاروں اطراف سے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا اور ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ایلان کا یہ بدقسمت خاندان یونان کے جزیرے کوس کی طرف آتے ہوئے سمندری موجوں کے طلاطم کا شکار ہوا۔ کشتی ٹوٹ گئی اور3سالہ ایلان اپنے پانچ سالہ بھائی گیلپ اور ماں ریحان کے ہمراہ موت کا شکار ہوا۔ سمندر نے ایلان کی لاش ساحل پر پھینک دی۔ اگلی صبح میڈیا میں ایلان کی خاموش تصویر نے ساری دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ جو کام وہ زندہ رہ کر نہ کر سکا‘ موت کا شکار ہو کر تاریخ کا ایک ان مٹ کردار بن کر سرانجام دے گیا۔ایک تصویر نے اقوام عالم کو جگا دیا۔ قارئین آئیے آپ کو چند اور تصاویر کے حوالے سے بتاتے ہیں جنہوں نے دنیا کے پرسکون سمندر میں ایسا بھونچال پیدا کیا کہ تاریخ بدل کے رہ گئی۔ 1۔ سفاک قاتل یہ تصویر 1968کی ہے جس میں جنوبی ویت نام کے پولیس آفیسر ناگویان ناگوک نے ایک ویتی نامی باشندے کو سفاکی سے قتل کر دیا۔ قتل کرتے اس قاتل کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہ تھا اور مرنے والے شہری کے چہرے پر زندگی کی تلاش میں بھیک مانگنے کے تاثر واضح تھے۔ زندگی اور موت میں ایک لمحے کے توقف سے بنائی گئی اس تصویر نے انسانیت کے علمبرداروں کے اس گھنائونے کردار کو بے نقاب کیا جہاں وہ زمینوں،اسلحوں اور دیگر اشیا کی تجارت کے لیے انسانی جانوں کو ضائع کر دینے کی کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ یہ تصویر ایڈی ایڈم نے بنائی اور پولیٹزر انعام جیتا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اس تصویر کو صفحہ اول پر شائع کیا اور اس کے اثرات امریکی پالیسی پر واضح طور پر نظر آئے۔ یاد رہے کہ امریکی فوجی 1975ء میں پہلی مرتبہ ویت نام میں جنگی کارروائی کے لیے داخل ہوئے تھے اور اپریل 2015ء کو ویت نام جنگ ختم ہونے کے چالیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ٹھیک چالیس برس قبل کمیونسٹ فورسز نے ویت نام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور امریکی اور اتحادی افواج ایک طویل اور تھکا دینے والی خونریز جنگ میں ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے واپس لوٹ گئی تھیں۔ آج ویت نام میں اس دن کو بھرپور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ تیس اپریل 1975 کو شمالی ویت نام کے ٹینک جنوبی ویت نام کے دارالحکومت سائیگون میں داخل ہو گئے تھے۔ انقلابی فورسز کے قبضے کے بعد اس شہر کا نام تبدیل کر کے ہو چی من سٹی رکھ دیا گیا تھا۔ ویت نام جنگ میں پچاس ہزار سے زائد امریکی فوجی بھی مارے گئے تھے۔ساٹھ کی دہائی میں ویت نام میں بھوک، افلاس اور غربت دیکھی گئی۔اس تنازعے میں مداخلت کا فیصلہ کرنے والے 36 ویں امریکی صدر لنڈن بی جانسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مشاورتی مشن کو عملی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب امریکا کے پانچ لاکھ فوجی ویت نام میں تعینات کیے گئے تھے۔ تاہم آج بہت سے تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ ویت نام کی جنگ میں مداخلت کی ایک بڑی وجہ جانسن کی شخصیت تھی۔ ان کے خیال میں سابق امریکی صدر جانسن ایک ایسے کمزور سیاستدان تھے، جو عوام کے سامنے مضبوط اعصاب کے مالک نظر آنے کی کوشش میں تھے۔جانسن ایک انتہائی پیچیدہ شخصیت کے حامل تھے۔ ایسے ٹھوس شواہد ہیں کہ انہیں خوف تھا کہ کہیں انہیں کمزور نہ سمجھ لیا جائے۔‘‘ 2۔ جان کینڈی کا قتل 22نومبر1963ء کا دن امریکی تاریخ کے منحوس ایام میں سے ایک تصور ہوتا ہے اس دن امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو بھرے مجمع میں قاتل نے اپنی گولی کا نشانہ لے لیا۔ یہ گولی جان لیوا ثابت ہوئی اور یوں امریکی صدر کے تمام حفاظتی اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور گولی تمام حصاروں کو توڑتی ہوئی امریکی صدر کی جان لے گئی۔ امریکی صدر پر ان کی اہلیہ جیکولین اپنے مقتول شوہر کی لاش پر جھکی پڑی ہے اور سیکرٹ سروس ایجنٹ کلنٹن ہل کار کے عقبی حصے میں نظر آ رہا ہے اس تاریخی لمحے کو کیمرے نے اپنی آنکھ میں محفوظ کر لیا اور اس قتل کے حوالے سے دنیا کو بہت سی بے پرکی کی اڑنے والی افواہوں سے محفوظ کیا۔ عالمی شہرت یافتہ تجزیہ نگار مارک گلن اس حوالے سے موجود ٹھوس دستاویزات و ثبوت کی موجودگی میں کہتے ہیںکہ اسرائیلی لابی کا نہ صرف یہ کہ امریکی کانگریس اور حکومت پر اثرو رسوخ ہے بلکہ امریکہ کے خفیہ اداروں میں بھی اس کے کارندے موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت آرام سے اس بات کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس وجہ سے امریکہ کی بڑی و طاقتور سیاسی جماعتیں جان کینڈی کے قتل کے حقائق کو عوام کے سامنے آنے نہیں دیتیں۔ مارک گلن نے تاکید کی ہے کہ اس قتل کے عوامل خود امریکی حکومت کے اندر موجود ہیں اور انہوں نے ہی اس ہولناک قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہاتھ آنے والے شواہد و دستاویزات سے نشاندہی ہوتی ہے کہ اُن کے قتل میں اسرائیل ملوث تھا۔واضح رہے کہ لی ھاروی اوسوالڈف نے 22 نومبر 1963 کو امریکہ کے اس وقت کے صدر جان ایف کینڈی کو ایسی حالت میں گولی مار کر قتل کردیا کہ جب وہ ایک کھلی گاڑی میں سوار ڈالاس شہر کا دورہ کررہے تھے۔قتل کے فوراً بعد یہ تصویر اتاری گئی تھی جس نے اعلیٰ عہدیداروں کی حفاظت کے نئے طریقوں پر غور کرنے پر مجبور کر دیا۔ 3۔ امریکی پرچم کا لہرانا یہ تصویر 23فروری 1945ء کو اس وقت اتاری گئی تھی جب پانچ امریکی آب دوزوں نے ایک نیوی کے ملاح کی مدد سے جاپان کے جزیرے آئیوجمیا کی پہاڑی سر ی بوچی پر قومی پرچم لہرایا تھا۔ یہ تصویر اس بات کا اعلان تھا کہ جاپانیوں کے خلاف امریکیوں نے دوسری جنگ عظیم جیت لی ہے۔یہ ٹیلی ویژن کا زمانہ تھا۔ پرچم لہرانے کے اگلے روز صبح کے اخبارات میں یہ تصویر نمایاں طور پر شائع ہوئی تو لاکھوں امریکیوں نے وار بینڈز خریدے اور اپنی کلائیوں پر باندھ کر فتح کا جشن منایا۔ تفصیل کے مطابق ناروے پر 1940 سے 1945 تک جرمنی کا قبضہ تھا۔ جنگ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ سبھی شہروں پر بمباری ہوئی۔ کئی عمارتیں اور کارخانے جل گئے تھے۔ ہر چیز کی فراہمی میں کمی آگئی تھی اور بیشتر لوگ مشکلات سے دوچار تھے۔ستمبر 1939 میں جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ملک میں کئی مقامات پر ہلکی پھلکی لڑائیاں ہوئیں لیکن چند دنوں میں جرمنوں نے ناروے پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنگ کے آغاز میں ناروے میں فوجی مزاحمت زیادہ نہ رہی۔ پولیس کو نازیوں نے کنٹرول کر لیا تھا اور ملک میں نئی نازی دوست حکومت بن گئی تھی۔ یہ حکومت کوئی جمہوری نہ تھی۔جنگ کے دوران بہت سارے نارویجنوں نے غیر قانونی کام کیے۔ کچھ نے بغیر اجازت معلومات پھیلائیں، مثلاً اخبارات اور دستی پرچیاں تقسیم کیں۔ کچھ نے نازیوں سے بچ کر دوسرے ممالک ہجرت کرنے میں مدد کی، خاص کر سویڈن اور انگلینڈ۔ کئی گرفتار ہو گئے اور قید خانوں میں قیدی بنا دئے گئے۔ 4۔ ڈسٹ لیڈی یوں محسوس ہوتا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ جیسے کل کا واقعہ ہے۔ آسمان سے باتیں کرتا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پلک جھپکتے ہی زمین بوس ہو گیا۔ ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔9ا لیون کو صبح زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی کہ اچانک ہوائی جہازوں نے اس عمارت کو گرا دیا۔ ملبے کے ڈھیر سے اڑتی دھول میں سر سے پائوں تک راکھ میں لپٹی یہ عورت زندہ سلامت باہر آئی تو کیمرے کی آنکھ نے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ یہ مارسی بارڈر تھیں جسے اس تصویر کے بعد ’’ڈسٹ لیڈی‘‘ کا نام دیا گیا ۔ گذشتہ ماہ نائن الیون کی یہ ’’ڈسٹ لیڈی‘‘ سرطان کے باعث انتقال کر گئیں۔ 42 سالہ مارسی بورڈرز دو بچوں کی ماں تھیں اور ان کا تعلق نیو جرسی سے تھا۔نائن الیون کے واقعے کے بعد مارسی بہت عرصے تک اضطراب کا شکار رہیں اور اسی دوران وہ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال کرنے لگیں۔مارسی 2001ء میں بینک آف امریکہ میں کام کرتی تھیں اور ان کا دفتر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے 81 ویں منزل پر تھا۔جب دہشت گردوں نے جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے تو ان کے افسر نے ہدایت کی کہ جہاں ہیں وہیں رہیں لیکن وہ کسی طرح عمارت سے نکل کر قریب ہی ایک اور عمارت کی لابی میں پہنچ گئیں۔جب وہ یہاں پہنچی تو ان کا پورا جسم راکھ سے ڈھکا ہوا تھا۔ لابی میں موجود فرانسیسی فوٹو گرافر اسٹین ہونڈا نے ان کی تصویر کھینچ لی جس کے منظر عام پر آنے کے بعد سے وہ "ڈسٹ لیڈی" کے نام سے مشہور ہوئیں۔ 5۔ ایٹم بم کی تباہی 6اگست1945کو امریکہ نے ’’لٹل بوائے‘‘ نامی ایٹم بم کو بطور جنگی ہتھیار آزمایا اور جاپانی شہر ہیرو شیما پر گرا کر ایک لاکھ چالیس ہزار کی جان منٹوں سکینڈوں میں لے لی۔ ایک دوسرا ایٹم بم جس کا نام’’فیٹ مین‘‘ رکھا گیا ایک دوسرے جاپانی شہر ناگا ساکی پر گرایا گیا۔یہ بم 9اگست 1945کو ناگاساکی پر پھینکا گیا جس میں 70ہزار سے زائد افراد موقع پر موت کا شکار ہوئے۔ 9 اگست 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے صنعتی شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا تھا۔اس ایٹمی حملے کے چھ روز بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مقامی وقت کے مطابق پلوٹونیم سے لیس یہ بم ناگاساکی کی فضا میں 11 بج کر 2 سیکنڈ پر پھٹا تھا۔اس ایٹم بم نے ناگاساکی شہر کا تقریبا ً30 فیصد حصہ تباہ کر دیا اور صنعتی علاقہ بالکل زمین بوس ہوگیا تھا۔یہ تصویر آنے والی نسلوں کو ہمیشہ امریکی بر بریت کی یاد دلاتی رہے گی۔ ٭…٭…٭





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Mamin Mirza (01-03-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •