وظیفہ



جوش ملیح آبادی
ہم آفریدیوں اور قندھاریوں کے مابین شاہی دور میں ہمیشہ تلوار چلتی رہی، انھیںقندھاریوں میں ایک صاحب عبدالرحمن خان تھے، جو میرے باپ کے پاس آیا کرتے تھے، انھیں آتے جاتے دیکھ کر مجھ کو اس بات پر تعجب ہوا کرتا تھا کہ قندھاریوں اور آفریدیوں کے درمیان تو ایک مدت سے عداوت چلی آرہی ہے، پھر وہ میرے باپ سے کیوں ملنے آتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ تعجب اور پشیمانی آمیز افسوس اس بات پر ہوتا تھا کہ عبدالرحمن خان کے آتے ہی میرے باپ کی آنکھیں کیوں جھک جاتی ہیں، میں یہ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں کڑھا کرتا تھا کہ میرے باپ شاید عبدالرحمن خان سے ڈرتے ہیں، جبھی تو اُن کو دیکھتے ہی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں، لیکن ڈر کے مارے زبان سے کچھ کہتا نہیں تھا، جب بہت دن تک یہ تماشا دیکھتا رہا تو مجھ سے ضبط نہیں ہوا اور ایک روز، ڈرتے ڈرتے میں نے پوچھا؛ میاں آپ عبدالرحمن خاں سے آنکھیں کیوں نہیں ملاتے، اُنھوں نے میرا یہ سوال سن کر، پہلے تو اُدھر اُدھر دیکھا اور پھر مجھ کو اپنے قریب بٹھا کر فرمایا: بیٹا، عبدالرحمن خان ایک زمانے میں رئیس تھے اب اُن کے پاس کچھ بھی نہیں رہا ہے، اس لئے میں ان کو وظیفہ دیتا ہوں اور بیٹا، شریفوں کی یہ آن ہے کہ جس کو وظیفہ دیتے ہیں، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، نہیں دیکھتے کہ وہ کہیں شرمندہ نہ ہو جائے اور جب میں آنکھوں میں آنسو بھرکر جانے لگا تو انھوں نے فرمایا: دیکھ بیٹامیرے سر کی قسم، یہ بات کبھی زبان پر نہ لانا۔ (یادوں کی برأت سے مقتبس) ٭…٭…٭