چلو کہ عہد کی تجدید پھر سے ہم کر لیں
کسی کی یاد میں آنکھوں کو آج نم کر لیں
سنائیں درد کا افسانہ بھیگتی شب کو
ڈبو کے جام میں خود کو غلط یہ غم کر لیں
منافقت کا لبادہ پھر اوڑھ لیں دم بھر
غموں کی دھوپ کو خوشیوں میں آؤ ضم کر لیں
شب فراق کو گریہ کناں ہی رہنے دیں
بچھڑ کے خود کو زمانے میں محترم کر لیں
اٹھائیں بوجھہ کیوں اک دوسرے کی چاہت کا
ہم اپنے آپ کو چاہ کر یہ بوجھہ کم کر لیں
نیر دلوں کے زخم دھو لیں اپنے اشکوں سے
وفا کے نام کو دنیا میں محتشم کر لیں