حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائزہ۔۲
’ آپ کی مطلوبہ معلومات حسبِ ذیل ہیں۔
وقت : علی الصبح
تاریخ : ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ء
مقام : کراچی‘‘ (۶۹)۔
قائد اعظم محمد علی جناح سے جب کبھی بھی سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی تاریخ پیدائش ۲۵، دسمبر ۱۸۷۶ء ہی بتائی محمد علی جناح نے اپنی جتنی بھی سال گرہیں منائیں وہ تمام ۲۵ دسمبر کو ہی منائیں۔پہلی مرتبہ ۱۹۳۹ء میں قائد اعظم کی سال گراہ ۲۵ دسمبر منائی گئی تو پیغامِ تہنیت کا جواب دیتے ہوے قائد اعظم نے فرمایا کہ میری سالگراہ کے موقعے پر ہندوستان کے مسلمانوں نے میری ذات کے لئے جن جذبات کا اظہارکیا ہے حقیقتاً میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ’’قائد اعظم کی آخری سالگراہ ۱۹۴۷ء میں منائی گئی‘‘(۷۰) فروری ۱۹۱۸ء میں مسز سروجنی نائڈو نے بھی درج بالا تاریخ کی تصدیق اپنی کتاب محمد علی جناح سفیر اتحاد ۔ (Muhammad Ali Jinnah: an Ambassidor of Unity) کے مقدمہ میں سب سے پہلے کی تھی، مسز نائڈو قائد اعظم کی قریبی دوست اور سیاسی ساتھی تھیں ان کی اطلاع کا ماخذ یقیناً قائد اعظم ہونگے۔ (۷۱)۔
محمد علی جناح کی انگلستان روانگی
جناح پونجا اس وقت کراچی کے مشہور تاجروں میں شمار کئے جاتے تھے۔ان کا کاروبار دن رات وسعت پذیر تھا۔وہ مختلف قسم کی تجارتی اشیاکی تجارت میں مشغول تھے۔ دنیا کے کئی ممالک کے تاجر ان کے پاس آتے تھے۔فاطمہ جناح تحریر کرتی ہیں کہ’’ان دنوں کاروبار کے سلسلے میںبہت سے افغان کندھار سے بھی میرے والد کے پاس آتے تھے‘‘ (۷۲)کاروباری مصروفیات کے باوجوجناح پونجا اپنے بیٹے کے مستقبل سے فکر مند تھے۔کیونکہ ان کو اپنے ہونہار بیٹے کا مستقبل بہت عزیزتھا۔جناح پونجا چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی ان کے کاروبا میں ہاتھ بٹائے۔کیونکہ وہ اپنے کاروبارکو بہت وسیع دیکھنا چاہتے تھے۔اس وقت ان کے تعلقات ایک بین الاقومی تجارتی کمپنی ،گراہم شپنگ کمپنی کے ساتھ بہت اچھے تھے۔وہ اس کمپنی سے باقاعدہ تجارتی لین دین رکھتے تھے۔بیٹے کے مسقبل کے ضمن میں جناح پونجا نے ایک روز گراہم شپنگ کمپنی کے جنرل مینیجرسے بیٹے کی تربیت و ترقی کے سلسلے میں بات کی۔فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ گراہم شپنگ کمپنی کا جنرل ’’منیجر ایک انگریز تھاجو میرے والد کا بہت اچھا دوست بن گیا تھا،اُس نے پیشکش کی کہ محمد علی جناح کو ہمار ے لندن آفس میں تین سال کیلئے Business Adminitrator کی تربیت کے لئے لندن بھیج دیں،جہاں پر وہ کاروباری طریقوں سے واقفیت حاصل کر لیں گے‘‘ (۷۳) مطلوبالحسن سید نے اس کے برعکس تحریر کیا ہے کہ’’ان کے والد کے ایک دوست نے تر غیب دی کہ جناح کو بیرسٹری کی تعلیم کے لئے لندن بھیج دیں‘‘(۷۴)مگر اس قول کی تائد میں دلائل نہیںملتے جبکہ فاظمہ جناح ،قائد اعظم کی قریبی ساتھی اور چھوٹی بہن تھیں ان کے قول کی تائد میں شریف المجاہد لکھتے ہیں کہ’’ابھی جناح سولہ سال کے ہی تھے کہ وہ گراہم اینڈ شپنگ کمپنی میں بزنس ایڈ منسٹریشن کی تربیت حاصل کرنے کے لئے لندن روانہ ہو گئے‘‘(۷۵)۔
محمد علی جناح کی لندن روانگی کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔’’اکثر کتابوں میں جناح کی لندن رونگی کا سال ۱۸۹۲ء درج ہے‘‘(۷۶)سب سے پہلے سروجنی نائڈو کی کتاب (Muhammad Ali Jinnah: an Ambassidor of Unity)محمد علی جناح سفیر اتحاد میں درج ہوا،پھر اس مسئلے کو اے اے رؤف نے اپنی کتا ب (Meet Mr.Jinnah) جناح سے ملیئے میںدرج کیا ہے(۷۷)یہی بات مطلوب الحسن سید نے بھی تحریر کی ہے(۷۸)قیامِ پاکستان کے بعد بھی بہت سے محمد علی جناح کے سوانح نگاراس ڈگر پر ہی چلتے رہے۔ہیکٹر بو لائتھو جس کو قائد اعظم کی سوانح لکھنے کے لئے مغرب سے بلایا گیا تھانے اس بات کو اپنی کتاب جناح معمار پاکستان میں درج کیا ہے ۔اس کے بعد غلام علی الانا نے اپنی کتاب (Quaid-i-Azam jinnah: story of a nation) قاقئد اعظم جناح ایک قوم کی کہانی لکھی تو انہوں نے بھی یہ ہی سن تحریر کیا’’حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح دسمبر ۱۸۹۲ء تک کراچی میں موجود تھے‘‘(۷۹) لہٰذا یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ محمد علی جناح نے لندن کا سفر جنوری ۱۸۹۳ء میں کیا تھا۔ وہ ’’ ۱۸۹۳ء کا نیال سال شروع ہوتے ہی جنوری کے مہنے میں اپنے والدین کی دعاؤں اور مستقبل کی آرزووں کے ساتھ لندن رو۲انہ ہو گئے‘‘(۸۰)۔
جب محمد علی جناح لندن پہنچے تو وہاں کا موسم کراچی سے بالکل مختلف تھا۔Hempton (ہیمپٹن) کی بندر گاہ پر اترنے کے بعد محمد علی جناح ’’ریل کے ذریعے لندن پہنچے‘‘ (۸۱)جہاں پر انہوں نے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیکررہائش اختیار کر لی۔گراہم کی تجارتی جہاز راں کمپنی کا دفتر تیسری نیڈل اسٹریٹ ’’(Third niddle street) کے قر یب تھا ۔ جہاں انہوں نے (Young Apprentice)نوجوان متعلم کی حیثیت سے اپنے اختیارات سنبھال لئے‘(۸۲) لندن کے ہوٹل میں مستقل قیام کرنا نہ تو سستاہی تھا اور نہ ہی آسان تھا۔ لہٰذا محمد علی جناح روزانہ اخبارات میں اشتہارات کا حصہ بڑی توجہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔تاکہ کوئی ایسا خاندان میسرآجائے جسے پیسے دے کر اس کے گھر میں ادائیگی کرنے والے مہمان (Paying guest) کے طور پر رہا جاسکے۔اس سلسلے میں انہوں نے کئی گھروں کا معائنہ بھی کیا،ان کی جستجو اُس وقت ختم ہوئی جب انہوں ایک خاندن کو اس قابل محسوس کیا کہ اُن کے ساتھ ان کا گذر بسر ٹھیک طریقے پر ہو سکتا ہے۔اور وہ خاندان بھی انہیں ادائگی والے مہمان کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھا۔یہ گھر مسز ایف ای پیڈر ک کا تھا۔جو35 Rossel road kinsington ،پر واقع تھاجہاں محمد علی جناح نے رہائش اختیار کی(۸۳)’’آج بھی لندن کا علاقہ روسیل روڈ کنسنگٹن معقول رہائشی علاقہ تصورکیا جاتا ہے‘‘(۸۴)’’ محمد علی جناح گراہم شپنگ کمپنی کی تربیت مکمل کر کے کسی درسگاہ میں داخلہ لینے کے خواہشمند تھے۔جناح کی خوش قسمتی تھی کہ اس بار داخلہ ٹیسٹ جوLittle go کہلاتے تھے، آخری بار ہورہے تھے۔آئندہ سال یا پھر یہ ٹیسٹ نہیں ہونے تھے۔یہی وجہ تھی کہ محمد علی جناح نے گراہم کمپنی کی متعلم شپ چھوڑ کر لٹل گو کے لئے سخت محنت کرناشروع کر دی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آئندہ سال نئے قانوں کے مطابق داخلے کے لئے جناح کی عمر کم تھی۔جس کی بنا پر اگر وہ ٹیسٹ میں شریک نہ ہوتے تو انہیں مزید دوسال داخلے کیلئے انتظارکرنا پڑتا(۸۵) جب ان کے والدکو جناح اس کے فیصلے کی اطلاع ملی تو انہوں نے جناح کے فیصلے سے اتفاق نہ کیا(۸۶) ایک روز لنکن اِن کے سامنے سے گذرتے ہو ے محمدعلی جناح کی نظر اس ان ناموں پر پڑی جنہوں دنیا کو بہترین قوانین دیئے تھے۔ان میں سب سے پہلا نام حضرت محمد کا تھا۔Hudson HV لکھتا ہے کہ محمد علی جناح نے اس ادارے میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا کہ جس کے دوازے پر دنیا کے اہم قانون دانوں کے نام کے ساتھ حضرت محمد مصطفٰے کانام بھی شامل تھا۔(۸۷)۔
امتحان پاس کر لینے کے بعد محمد علی جناح اس قابل ہو گئے کہ وہ انگلستان میں تعلیم حاصل کر سکیں۔محمد علی جناح نے لنکن اِن میں داخلہ لینے کا فیصلہ لندن پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد کاروباری تربیت کو چھوڑ کر اپنی وکیل بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا فیصلہ کر لیااور ’’۵ جون کو لنکن اِن‘ میں داخل ہوگئے۔رجسٹر میں ان کا نام محمد علی جناح بھا ئی لکھا گیاوطنیت کے خانے میںکراچی سندھ ‘ کا اندراج ہوا اور عمر ۱۹ سال لکھی گئی۔اس زمانے میں تاریخ پیدائش لکھنے کا رواج نہ تھا‘‘(۸۸)محمد علی جناح نے لنکن اِن میں داخلہ لینے کے بعد دن رات محنت کرنا شروع کر دی۔لنکن اِن میں داخلے کے تین سال بعد انہوں نے یہاں سے سند حاصل کی اس طرح وہ سب سے کم عمر ہندوستانی بیرسٹر بن گئے(۸۹)۔
دوران تعلیم محمد علی جناح کو کئی صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔محمد علی جناح کے انگلستان پہنچنے کے چند ماہ بعد ہی یہ اطلاع دی گئی کہ ان کی بیوی ایمی بائی کا انتقال ہو گیا ہے۔(۹۰) ’’ایمی بائی محمدعلی جناح کے لندن روانگی کے بعد بمبئی میں ہیضے کی وبا کے دوران ہلاک ہوگئیں تھیں ‘‘(۹۱)جس کے بعد جناح کی والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔جناح کی والدہ کا انتقال بچے کی پیدائش کے دوران ہوا۔ جس کے بعد یقینی طور پر جناح کے دل و دماغ پربہت بوجھ پڑا ہوگا۔اس وقت وہ لنکن ان میں زیر تعلم تھے جب انہیں انکی والدہ کے انتقال کی خبر ملی(۹۲) محمد علی جناح اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد واپس کراچی تشریف لے آئے۔محمد علی جناح کی لندن سے کراچی واپسی کے سن پر تمام سوانح نگار اور محققین متفق ہیں۔کہ ’’ محمد علی جناح اپنے پیشے کی تکمیل و تربیت کے بعد ۱۸۹۶ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے‘‘(۹۳)۔
محمد علی جناح بحیثیت وکیل
جس وقت محمد علی جناح اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انگلستان سے کراچی پہنچے تو جناح پونجا کا ’’کاروبا شدید خسارے کا شکار تھا‘‘(۹۴)کراچی آمد کے بعد محمد علی جناح نے خاندان کو سہارا دینے کی غرض سے کراچی کی عدالتوں کا جائزہ لیا۔مئی کے مہینے میں انہوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کر دی‘‘(۹۵) جناح پونجا کا خیال تھا کہ بیٹاوکالت کر کے خوب پیسہ کمائے گا اور میرا اقتصادی بوجھ ہلکا کرے گا۔لہٰذا انہوں نے محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ وہ کراچی میں وکالت شروع کر دیںاور اس طرح ایک معقول آمدنی کو یقینی بنانے کے لیئے وکیلوں کی کسی فرم کے ساتھ منسلک ہو جائیں۔انہوں نے وکالت کی دو فرموں ہری چند رائے وشن داس اینڈ کو، اورلال چند اینڈ کمپنی کے سربراہوں سے اس بات کا تذکرہ کیا یہ دونوں کمپنیاں کاروباری سلسلوں میں جناح پونجا کی قانونی مشیر تھیں۔ان کے سربراہوں کے ساتھ جناح پونجا کے اچھے مراسم تھے۔لہٰذا دونوں کمپنیوں نے محمد علی جناح کو اپنے ہاں جگہ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا(۹۶)اس کے علاوہ کراچی کے ایک مشہور وکیل وال چند نے تو ’’ پیشکش کی کہ آپ میرے ساتھ نائب کی حیثیت سے کام شروع کردیں‘‘(۹۷) محمد علی جناح آزادی پسند انسان تھے وہ کسی کی ملازمت میں رہنے کے ہر گز خوہش مند نہ تھے۔بلکہ وہ آزاد ماحول میں آزادی کے ساتھ پریکٹس شروع کرنے کے خواہشمند تھے۔لہٰذا انہوں نے وال چند جیسے معروف وکیل کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔’’اس وقت صوبہ سندھ میں چند ہی مسلمان بیرسٹر تھے۔اور یقیناً مسلمان نوجونوں میں محمد علی ایک سرمایہ تھے‘‘ (۹۹)کراچی کے حالات کودیکھتے ہوے وہ ذہنی طور پر اس بات پر آمادہ تھے کہ کراچی کی بجائے کسی اور جگہ پر پریکٹس کی جائے۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں جناح کو اپنے پیشے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ فاطمہ جناح کا بیان ہے کہ میرے والد کی خوہش تھی کہ ان کا بیٹا کراچی میں ہی پریکٹس کرے جہاں ان کے خاندان کے بہی خواہ اور احباب پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں مقیم ہیں‘‘(۱۰۰)کراچی میں پیشہ ورانہ امور میں نا کامی کی وجہ سے محمد علی جناح کو مجبوراً بمبئی کا رخ کرنا پڑا۔ذرائع معاش کی تلاش میں محمد علی جناح نے اپنے والد کے گھر اور کاروبار کو چھوڑ کر ’’۱۸۹۷ء میں بمبئی چلے گئے۔جہاں انہوں نے اپنا نام ایک وکیل کی حیثیت سے درج کرایا‘‘(۱۰۱)بمبئی بار میں اس وقت وہ واحد مسلمان بیرسٹر تھے‘‘(۱۰۲)بمبئی پہنچنے کے بعد محمد علی جناح نے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا۔ا’’پالو ہوٹل‘‘ کے کمرہ نمبر۶ میں ان کا قیام ہوا اور فورٹ ایری میںایک چھوٹے سے کمرے میں ان کا دفتر بنا(۱۰۳)ابتدائی ایامٔمیں محمدعلی جناح کو یہاں پر بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ان نا مساعد حالات کے باوجود محمد علی جناح نے لوگوں سے اپنے تعلقات کا سلسلہ جاری رکھا۔یہ سماجی تعلقات ان کے لئے باعثِ رحمت ثابت ہوے۔جن کی وجہ سے ان کے راستوں کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ان کے بمبئی کے ایک دوست جو انکی اعلیٰ صلاحیتوں کے بھی شناسا تھے انہوں ان انکا تعارف بمبئی کے ایک نامور وکیل میکفر سن سے کرایا۔جو کہ اس وقت عارضی ایڈوکیٹ جنرل بمبئی کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ جوان سال محمد علی جناح کی صلاھیتوں سے بہت متاثر ہوے۔میکفر سن نے جناح کو اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت بھی دی ۔انہوں نے ان کو اپنے چیمبر میں اپنی ذاتی لائبریری استعمال کرنے کی اجازت بھی دیدی تھی۔محمد علی جناح کبھی بھی میکفرسن کی اس اعلیٰ ظرفی کو فراموش نہ کر سکے ۔ اس وقت یہ بھی ایک اہم بات تھی کہ کوئی انگریز کسی ہندوستانی سے اس طرح کا مہر بانی کا سلوک رو رکھے(۱۰۴)۔
بمبئی میں محمد علی جناح کے ابتدائی تین سال بڑی مشکلات اور پریشانیوں میں گذرے تھے۔مگر ان پریشانیوں کے باوجود وہ پابندی سے روزانہ اپنے دفتر میں جا کر بیٹھتے تھے۔وکالت کے پیشے میں دراصل نام سے کام چلتا ہے۔ جو خاصی مشقت کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کے لئے برسوں مشقت کرنا پڑتی ہے۔ان نا مشکل حالات میں وہ روز ا نہ عدالت سے پیدل چل کر اپنے کمرے تک آتے اور جاتے تھے۔ جو عدالت سے خاصہ فاصلے پر تھا۔جناح وکالت میں بھر پور کامیابی کے خواہشمند تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان کے صبر و استقلال میں فرق نہ آیا۔رفتہ رفتہ انہیں چھوٹے موٹے مقدمات ملنے لگے۔’’تین برس کے بعدچھٹیوں سے پیدا ہونے والی عارضی آسامی پر اُن کا تقرر عارضی پریزیڈینسی مجسٹر یٹ کی حیثیت سے ہوگیا‘‘(۱۰۵)جب ان کا تقررمجسٹریٹ کی حیثیت سے ہوا تو اس وقت قائد اعظم ۲۴ سال کے ہوچکے تھے(۱۰۶)پریزیڈینسی مجسٹریت کی حیثیت سے ’’ محمد علی جناح کا تقرر ۱۹۰۰میں ہوا ‘‘(۱۰۷)جناح کا تقرر’’مسٹر پی ہوشنگ وستور کی جگہ پرتین ماہ کے لئے ہوا۔‘‘(۱۰۸)تھا۔جس پر مسٹر جناح نے بڑی محنت کے ساتھ کام کیا تھا۔ سراولیونٹ چارلس نے مزید تین ماہ کے لئے ان کا تقرر کر دیا(۱۰۹)۔
جناح کے تمام جوہر چھ ماہ کی مدت میں کھل کر سامنے آگئے۔اس دوران ان کا معاوضہ ۱۵۰۰ ،روپے ماہانہ تھا۔جب ان کے مزید تین ماہ بھی مکمل ہو گئے تو ملازمت چھوڑتے ہی اسی معاوضے پر محمد علی جناح کو ایک پیشکش کی گئی مگر انہوں یہ بات واضح کردی کہ وہ ایک دن میں ۱۵۰۰ روپے کمانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں جلد ہی اس قابل ہو جاؤں گاکہ ایک دن میں اس زیادہ پیسے کماسکوں۔‘‘(۱۱۰)پھر واقعی ان کی آمدنی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیااور وہ روزانہ ۱۵۰۰ روپے سے زیادہ کمانے لگے۔’’حقیقت یہ کہ و ہ نہایت
کمزور مقدمات بھی جیت لیتے تھے‘‘(۱۱۱)جب ان کی معقول آمدنی ہو گئی تو اپنے خاندان کو جو کاروباری خسارے کی وجہ سے مفلوک الحال ہوگیا تھا۔کراچی سے بمبئی بلا لیا۔بمبئی میں ان کے’’بہن بھائی خوجہ محلے میں رہنے لگے تھے۔جہاں وہ ہر اتوار کو جایا کرتے تھے‘‘(۱۱۲)۔
محمد علی جناح کا سیاسی سفر
ایک اچھے بیرسٹر کی حیثیت سے محمد علی جناح کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ہندوستان کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر جناح کو ہندوستان کی سیاست سے بھی بڑا شغف ہوگیا تھا۔اب جناح کسی اہم سیاسی جماعت سے منسلک ہونا چاہتے تھے۔ کانگرس سے جناح کی پہلی رسمی وابستگی ستمبر ۱۹۰۵ء میں ہوئی جب بمبئی پریذیڈینسی ایسو سی ایشن نے انہیں انگلستان جانے والے وفد میں مہتہ کی جگہ کانگریسی وفد کا ایک رکن نامزد کر دیا گیا تھا۔یہ وفد گوکھلے کی سر کردگی میں انگلستان اس لئے بھیجا جا رہا تھا کہ وہاں حکومت خود اختیاری سے متعلق ہندوستا نی عوام کی خوہشات کو نہایت موثر انداز اور معقولیت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔سیاست میں جناح کا یہ پہلا قدم تھا۔ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کی نامزد گی ایک سیاسی ترجمان کی حیثیت میں کی گئی تھی(۳ ۱۱) ’’کہاجاتا ہے کہ محمد علی جناح گوکھلے کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔کیونکہ گوکھلے میں بے شمار خوبیاں ہندوستانیو کی خدما ت کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیںجس کی وجہ سے محمد علی جناح ان کی طرف راغب ہوے ’’اُن کی خواہش تھی کہ وہ بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے گوکھلے بن جائیں‘‘(۱۱۴)اس وقت ہندو ستان اپنی تاریخ کے خطر ناک حالات سے دو چار تھا۔انہی حالات نے جناح کو سیاست کی طرف را غب کیا تھا۔جب انہوں نے سیاست میںحصہ لینا شرع کردیا تو وہ دن رات ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہوگئے۔’’۱۹۰۶ء میں کانگرس کے کلکتہ اجلاس کے دوران محمد علی جناح جودادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے‘‘ (۱۱۵) سیاست کے ضمن میں محمد علی جناح کا کہنا ہے کہ میں نے سیاست کا پہلا قدم چلنا سریندر ناتھ بنرجی سے سیکھا تھا۔اس وقت جناح کے سیاسی نظریات کی تشکیل میںگوکھلے، دادا بھائی نوروجی ،سریندر ناتھ بنر جی اور آر سی داس کی شخصیتیں اور ان کے نظریات نے اہم کردار ادا کیاتھا(۱۱۶)۔
۱۹۱۰ء سے محمد علی جناح مسلم لیگ کے مختلف اجلاسوں میں مسلسل شریک ہوتے رہے تھے۔سید وزیر حسن اور محمد علی جوہر کی کوششوں کے نتیجے میں’’۱۰، اکتوبر ۱۹۱۳ء کو محمد علی جناح کو مسلم لیگ کے رکن کی حیثیت سے رجسٹرڈ کر لیا گیا‘‘(۱۱۷)اسی دوران وہ وائسرائے کی کونسل کے دوبارہ رکن بنا لئے گئے ان کو’’پہلی مرتبہ ۴ جون ۱۹۱۰ء میں تین سال کے لئے وائسرائے کی کونسل کا رکن چنا گیا‘‘(۱۱۸) تھا۔
ایک پالیمنٹرین کی حیثیت سے جناح کی اولین کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ’’وقف الالاولاد ‘‘سے متعلق ان کا پیش کیا گیا بل پاس کیا جانا اور اس کی منظوری تھی۔جو خود محمدعلی جناح نے مجلس قانون ساز(اسمبلی) میں پیش کیا تھا۔ جو’’۵ مارچ ۱۹۱۳ کو پاس ‘‘کر لیا گیاتھا(۱۱۹)اس وقت تک محمد علی جناح کانگریس میں ایک اہم مقام حاصل کر چکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ا ب وہ جہاں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان پل تھے وہیں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کر کے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی پوز یشن میں آگئے تھے۔اس وقت سیاست کی میدان میں جناح کے ہم پلہ چند ایک افراد ہی تھے۔وہ ایک جانب ہندو مسلم اتحاد کے بہت برے علمبرداتھے تو دوسری جانب حکومت کی ہمیشہ تعمیری انداز میں بھر پور مخالفت بھی کرتے رہے۔’’مئی ۱۹۱۴ء میں قائد اعظم(محمد علی جناح) نے ایک وفد کے ساتھ انگلستان کا دورہ کیا‘‘(۱۲۰)محمد علی جناح کانگریس کے وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان پہنچے ‘‘(۱۲۱)جہاں انہوں نے حکومتِ خود اختیار کے سلسلے میں گفت و شنید کی۔بد قسمتی سے اس وفد کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔لہٰذا وفد ناکام ہندوستان لوٹا۔اسی دوران جنگ عظیم اول کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔
۱۲، نومبر ۱۹۱۵ء کو جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ آزادی کی جنگ میں ہندووں کے شانہ بشانہ شریک رہیں۔تاکہ ہندوستان کے بننے والے دستور پر صرف اکثریت کا اثر نہ ہو پائے،بلکہ مسلمان بھی اس دستور سازی میں برابر کے شریک رہیں۔محمدعلی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس نزدیک تر ہونا شروع ہوگئیں ۔انہوں نے مسلم لیگ کو اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ آئندہ اپنا اجلاس اس مقام پر اور اُس وقت منعقد کرے جب اور جہاں کانگریس کا اجلاس ہو رہا ہو(۱۲۳)جناح کی اس جدوجہد کے نتیجے میں کانگریس اور مسلم لیگ کا اجلاس ’’۱۹۱۵ء میں بمبئی کے مقام پر منعقد ہوا۔اس اجتماع میں انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی متفقہ( آئینی) اسکیم تیار کر نے کی تجویز پیش کی۔مجوزہ اسکیم کی تیاری کے لئے جناح نے زبر دست دوڑ دھوپ اور جدوجہد کی۔یہ دوڑ دھوپ اورجدوجہد میثاقِ لکھنؤ پر منتج ہوئی‘‘(۱۲۳)جو لکھنؤ کے مقام پر ’’کانگر یس اور مسلم لیگ کے درمیان ۱۹۱۶ء میں ہوا‘‘(۱۲۴)۔
ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میثاق لکھنؤاس معاہدے کے تحت کانگریس نے مسلمانوں کے جداگانہ حقِ انتخابانتخاب کو تسلیم کر لیا جس کے تحت مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آخر کار کانگریس کی تسلیم کرنا ہی پڑا۔اس معاہدے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہندو مسلم اختلافات پھر عود کر سامنے آنے لگے۔اسی دوران ہندوستان میں ہوم رول لیگ کی تحریک نے زور پکڑاجس کی بانی اینی بسنت تھیں۔جناح نے ہوم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کر لی تھی۔’’ قائد اعظم ہوم رول لیگ بمبئی کے صدر بھی رہے‘‘(۱۲۵) اسی دوران میں محمد علی جناح کو مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑ گئی۔یہ ’’شادی ایک پارسی لڑکی کے ساتھ ۱۹، اپریل ۱۹۱۸ء کو سر ڈنشا پٹیٹ کی بیٹی ‘‘ رتن بائی سے ہوئی (۱۲۶) محمد علی جناح کے سر ڈنشا پٹیٹ سے بہت اچھے تعلقات تھے اور اکثر ان کے گھر پر جناح کا آنا جانا رہتا تھا۔سر ڈنشا پٹیٹ کی صاحب زادی رتن بائی محمد علی جناح کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔انہوں نے خود ہی جناح سے شادی کی فرمائش کی جناح نے پہلے رتن بائی کو مسلمان کیا اور اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے پر ان سے اسلامی طریقے پر نکاح کرلیا۔جناح اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے گھر پر زیادہ توجہ نہ دے سکے جس کی بناء پر ان کے درمیان جلد علیحدگی ہوگئی۔ رتن بائی سے محمد علی جناح کے ہاں ایک بیٹی ’’دینا‘ ‘پیدا ہوئی ۔جس نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کر لی تھی ۔جس کی وجہ سے اس شادی کے بعدمحمد علی جناح اپنی بیٹی دینا سے زندگی بھر کبھی نہیں ملے۔
۱۹۲۰ء میں جب گاندھی نے ہوم رول لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ا س کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تو جناح نے ہوم رول لیگ سے یہ کہہ کر استعفےٰ دیدیا کہ ’’ آپ کے انتہا پسندانہ پروگرام نے وقتی طور پر زیادہ تر نہ تجربہ کار نوجوانوں نا سمجھوں اور اَن پڑھ لوگوں کو اپنے زیرِ اثر کر لیا ہے۔ اس کا حاصل صرف بد نظمی اور انتشار ہوگا‘‘(۱۲۷)’’دسمبر ۱۹۲۰ء کے آخری عشرے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے بیک وقت اجلاس ہوے ۔جہاں گاندھی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیاجس کے نتیجے میں محمد علی جناح نے کانگریس سے (بھی) استعفیٰ دیدیا‘‘ (۱۲۸)
۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۲ء کے دوران چلنے والی تحریکِ خلافت سے محمد علی جناح نے اپنے آپ کو دور رکھاحالانکہ یہ پہلی تحریک تھی جس نے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کر کے رکھ دی تھی۔گاندھی نے کمال ہوشیاری سے اس کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت یہ تحریک عروج پر تھی تو گاندھی نے ایک واقعے کو بہانہ بنا کر اس تحر یک کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا(۱۲۹) ۔
اس وقت تک مسلم لیگ ہندوستان میں کوئی واضح طاقت حاصل کرنے میں نا کام رہی تھی۔مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے لئے ۱۹۲۴ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس بلایا گیاجہاں محمد علی جناح کو ’’تین سال کے لئے مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا‘‘(۱۳۰) اس دوران جناح کوشش کرتے رہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ مل کر بھر پور طریقے پر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کریںاور آپس کے اتحاد کو بحال کریںایک جانب وہ آئینی اصلاحات کے لئے کوششیں کر رہے تھے تو دوسری جانب ان کی اب بھی کوشش یہ ہی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے مذاکرات جاری رہیں۔مگر ہندووں کی جانب سے جداگانہ انتخابات کے بجائے مسلسل مخلوط انتخابات کا مطالبہ ہی ہوتا رہا۔جس کے جواب میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس دہلی، دسمبر ۱۹۲۶ء میں واضح کیا کہ ’’صرف مخلوط انتخابات سے قومیت پیدا نہیں ہوسکتی ہے‘‘(۱۳۰)۔
محمد علی جناح ایک مدبر سیاست دان کی طرح ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے رہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک غیر رسمی اجلاس طلب کیاجو ان کی صدارت میں دہلی میں ’’۲۰مارچ ۱۹۲۷ء کو ہوا جس میں ہندوستان کے تیس سربر آوردہ اور مختلف الخیال رہنماؤں کو دہلی کے ویسٹرن ہوٹل میں مدعو کیا گیا‘‘(۱۳۱) تھا ۔اسکانفرنس میں تمام مسائل پر غور و فکر ہوا۔اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے نئی تجاویز مرتب گئیں۔دیکھا جائے تو دہلی اجلاس کی تمام تجاویز مسلمانوں کے متفقہ مطالبات کی مظہر اور میثاق لکھنؤ کے متبادل تھیں۔جن میں مرکز ،پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی متنا سب نمائندگی ،صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات اور سندھ کی بمبئی سے علیحد گی کی سفارش کی گئی تھی۔مسلمانو ں کے کم سے کم مطالبات کومنوانے کے لئے محمد علی جناح نے کلکتہ کے آل پارٹیز کنونشن ۱۹۲۸ء میں بھر پور کوشش کی کہ یہ کنونشن نہرو رپورٹ پر غور کرے۔نہرو رپورٹ مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ایک کھلا معاملہ تھا۔مگر ہندووں اور کانگرسی ذہن کے لوگوں نے اس کی تمام تجاویز کو رد کر دیا۔اس طرح یہ کنونشن نا کام ہوگیا۔’’ اس کنونشن میں ۱۲۰۰ مندوبین شر یک ہوے جن کا تعلق ۷۳ مختلف جماعتوں سے تھا‘‘(۱۳۲)مارچ ۱۹۲۹ء میں محمد علی جناح نے اپنے مشہور ۱۴، نکات پیش کر دیئے ۔یہ نکات اس کنونشن میںہندووں کے رویئے کی وجہ سے پیش کئے گئے ۔اس وقت جناح کے یہ چودہ نکات مسلمانوں کی امنگوں اور احساسات کے مظہر تھے۔
۳۲۔۱۹۳۰ء کے دوران انگلستان میں گول میزکانفرنسیں منعقد ہوئیںجو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئیںہندووں کی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کی شکایتوںکی وجہ سے ’’۱۹۳۲ء میں محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا‘‘(۱۳۴)۳۴۔۱۹۳۳ء میں کئی سرکردہ مسلمان رہنماؤں نے محمد علی جناح سے درخوست کی کہ وہ انگلینڈ سے واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کے لئے کام کریں۔ ۱۹۳۴ء میں جناح کی غیر موجودگی میں بمبئی کی مسلم نشست پر ان کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کر دیئے گئے۔ ’’ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں ، اس وقت جبکہ جناح ابھی انگلستان میں ہی تھے بمبئی کے مسلمانوں نے مرکزی اسمبلی کے لئے انہیں بلا مقابلہ منتخب کر لیا‘‘(۱۳۶)اس دوران لیاقت علی خان اور اور دیگر مسلمان رہنماؤ ں کے زور دینے پر محمد علی جناح انگلستان سے واپس ہندوستان آگئے۔ ہندوستان واپسی پر انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھا لی۔تو ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔جنوری ۱۹۳۵ء میں جب نئی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو انہیں انڈپینڈینٹ پارٹی کا قائد منتخب کرلیا گیا۔(۱۳۷)مسلم لیگ کی تنظیم نو کے دوران بھی جناح ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔دوسری جانب وہ مسلم لیگ کے بے جان جسم میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیگ کے احیا کے لئے انہو ں نے دن رات محنت و جدوجہد کی۔ ۱۹۳۷ ء میں ہندوستان میں انتخابات ہونے والے تھے۔یہ ہندوستان میں’’پہلے عام انتخابات گورنمنٹ ایکٹ۱۹۳۵ء کے تحت فروری ۱۹۳۷ء میں لڑے گئے‘‘(۱۳۸) ان انتخابا ت میں مسلم لیگ کو خاطر خواہ کامیاب نہ ہوئی۔ جس کی بناء پر ہندوستان کے اکثر صو بوں میں کانگریسی حکومتوں کی تشکیل عمل میں آئی کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ رویہ روا رکھا۔
کانگریس نے اپنی حکومتی طاقت مسلمانوں کے خلاف اور انہیں ذلیل کرنے کے لئے استعمال کی (۱۳۹)دوسری جانب عام ہندووں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزی ہوتی رہی جس کے نتیجے میں’’صرف ایک برس میں ۵۷ سنگین فسادات ہوے ‘‘(۱۴۰)۳۰ ستمبر ۱۹۳۹ء کو حکومت بر طانیہ نے جنگ عظیم دوم کا اعلان کیا ‘‘(۱۴۱)توکانگریس کی صوبا ئی وزارتوں نے اس اعلان کے بعد احتجاج کرتے ہوے اپنے استعفے پش کر دیئے‘‘(۱۴۲)کانگریسی حکومتوں کے خاتمے کے پر مسلمانوں نے نے خوشی اور اطمنان کا اظہار کیا۔ ’’۲،دسمبر ۱۹۳۹ء کو محمد علی جناح نے بر صغیر کے مسلمانوں سے ایک عام اپیل کی جس میں کہا گیا تھا کہ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۹ء کو کانگریسی حکومتوں کے خاتمے کی خوشی میں یومِ نجات منائیں‘‘ (۱۴۳)۱۹۴۰ کا سال مسلم لیگ اور بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے بہت ہی اہم ثابت ہوا۔اب ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد کی سمت واضح ہو چکی تھی۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں مسلم لی کا ستائیسواں سالانہ تا ریخی اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہوا۔جس میںتقسیم ہندوستان کے سلسلے میں ایک قرار داد ، جس کو قرار داد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پیش کی گئی۔جس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔قرار داد لاہور کی منظوری کے ۲۰، ماہ بعد ہندوستان میں حکومت بر طانیہ کی طرف سے کرپس مشن ہندوستان آیا۔ تاکہ ہندوستانیوں سے ہندوستان کی آزادی کے ضمن میں بات چیت کی جائے۔مگر یہ مشن ناکام واپس انگلستان لوٹا۔۱۹۴۲ء میں کانگریس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلائی جس کے تحت کانگریس نے سول نافرمانی کا بھی آغاز کر دیا۔محمد علی جناح نے کانگریس کے نعرے ہندوستان چھوڑ دو کے جواب میں نعرہ لگایا کہ ’’تقسیم کر اور جاؤ‘‘
اگست ۱۹۴۵ء میں انگلستان میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد حکومت نے سال کے آخر میں ہندوستان میں عام انتخابات کرانے کااعلان کر دیا۔ان انتخابات نے دو قومی نظریہ کو ثابت کر دیا۔جس کی کانگریس ہمیشہ نفی کرتی رہی تھی۔انتخابات میں کامیابی کے بعد ۳۰،دسمبر ۱۹۴۵ء کو قائد اعظم نے ایک بیان میں مسلمانان بر صغیر سے اپیل کی کہ وہ انتخابا ت کی کامیابی پر گیارہ جنوری ۱۲۹۴۶ کو یومِ فتح منائیں(۱۴۴)حقیقتاً انگریز اور کانگریس دونوں ہندوستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔’’بر طانہ کے وزیر اعظم اٹیلی نے وائسرائے کو لکھا کہ ہماری حکومت کا خاص مقصد یہ ہے کہ بر طانوی ہند اور ریاستوں کے درمیان متحدہ حکومت قائم کریں(۱۴۵)ان حالات کو سامنے رکھتے ہوے حکومت برطانیہ نے کابینہ مشن ہندوستان کے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی غر سے بھیجا۔ ’’۱۶،مئی ۱۹۴۶ء کو اس نے اپنا منصوبہ پیش کر دیا‘‘(۱۴۶)دونوں جماعتوں میں سے کسی پر یہ دباؤ نہ تھا کہ وہ اس منصوبے کو تسلیم کریں یا رد کردیں۔
محمد علی جناح ایک مدبر سیاست دان تھے۔وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔کانگریس نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا جب کانگریس نے اس منصوبے سے بچنا چاہا تو مسلم لیگ نے بھی اس منصوبے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔محمد علی ’’جناح جیسے آئین پسند شخص نے ۱۹۴۶ء کے اس زبردست سنگین بحرانی دور میں راست اقدام جیسی کاروائی کی دھمکی دیدی‘‘(۱۴۷)اس دوران کانگریس اور وائسرائے ہندکے درمیان مذاکرات ہوتے۔’’ہی مسلم لیگ کابینہ منصوبے سے دستبردار ہوئی کانگریس نے ۲۴، اگست ۱۹۴۶ء کو اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ عبوری حکومت میں حصہ لے گی‘‘(۱۴۸)۲، ستمبر کو پنڈت نہرو کی زیر قیادت ایک عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس گٹھ جوڑ کے خلاف ملک میں سیاہ پرچم لہرائے۔جس کے بعد پورا ہندوستان فرقہ واریت کی لپیٹ میں آگیا۔قائد اعظم اس صورتِ حال کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔اس ضمن میں محمد علی جناح نے وائسرائے سے گفت و شنید کی جس کے بعد مسلم لیگ بھی۲۵، دسمبر ۱۹۴۶ء کو عبوری حکومت میں شامل ہو گئی مسلم لیگ کی طرف سے شامل ہونے والے وزرا کی فہرست کچھ اس طرح تھی۔’’لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر،عبدالرب نشتر،غضنفر علی خان اور جوگیندر ناتھ منڈل‘‘(۱۴۹)
۲۴،مارچ ۱۹۴۷ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے بن کر ہندوستان آئے۔انہوں نے یہا آنے کے بعد’’۳،جون ۱۹۴۷ء کو ایک منصوبہ پیش کیایہ قائد اعظم کی مہارت تھی کہ انہوں نے وئسرائے اور کانگریس کے لیڈروں کو ۳،جون پلان میں قیام پاکستان کا مطالبہ ماننے کے لئے مجبور کر دیا‘‘(۱۵۰)اس منصوبے کے تحت ۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم بنایا گیا۔
۳،جون کے اعلان آزادی کے بعد ۱۱، اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کوپاکستان کی پہلی اسمبلی کا صدر چنا گیا۔ اس وقت قائد اعظم کی صحت کچھ قابلِ رشک نہ تھی۔مگر اس کے با و جو وقومی امور اورقومی خدمات سے غافل نہ تھے۔وہ دن رات مسلسل قومی خدمات اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود انجام دیتے رہے۔اس وقت پاکستان کو بہت ہی خطر ناک مسائل کا سامنا تھا۔
۱۵،اگست ۱۹۴۷ء کو کراچی میں قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا۔حلف برداری کے بعد بانیِ پاکستان کو پاک بحریہ اور بلوچ رجمنٹ نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔اسی روز قائد اعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا۔۱۵،اگست کو ریڈیو پاکستان کا افتتاح کرتے ہوے قائد نے اپنی قوم کو تلقین کرتے ہوے فرمایا کہ ’’متحد رہو اور پاکستان کو مضبوط بناؤ‘‘(۱۵۱)پھر ۱۹، مارچ ۱۹۴۸ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔۲۴،مارچ کو ڈھاکہ یونیور سٹی میں خطاب کرتے ہوے واضح کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔اپریل کے مہینے میں انہوں نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا۔جہاں انہوں نے کئی جرگوں اور عوامی جلسوں سے بھی خطاب کیا۔کراچی واپسی پر قائد اعظم کو بہت زیاد تھکن کی وجہ سے ان کی صحت نہایت خراب ہو چکی تھی۔کچھ دن کراچی میں قیام کے بعد قائد کوئٹہ چلے گئے۔مگر یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات میں کمی نہ آئی۔کوئٹہ اور زیارت میں قیام کے دوران انکی صحت ذرا سنبھل گئی تھی۔جس کے بعد اسٹیٹ بینک کی رسم افتتاح ادا کرنے کے لئے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کراچی آنا پڑا۔(۱۵۲)اسی روز انہوں نے اپنے مشرقی پاکستان کے دورے کی فلم بھی دیکھی۔اس کے بعد ۷،جولائی کو قائد اعظم واپس کوئٹہ چلے گئے۔’’آتے ہی کھانسی اور بخار کی وجہ سے صاحبِ فراش ہوگئے‘‘(۱۵۳)بانیِ پاکستان کی صحت اب دن بدن خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔چند ہی دنوں میں جناح کی صحت اور بھی سنگین ہوگئی جس کی وجہ سے انکو ان کے معالج کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر فوری طور پر زیارت منتقل کر دیا گیا۔قائد اعظم کی تیماری داری میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے دن رات ایک کر دیاتھا۔قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ ہندوستان کے مسلمانوں کے رہنما اور ’’بانیِ پاکستان نے بسترِ علالت پر منائی۔ہر آنے والا لمحہ قائد اعظم کی مزید صحت کی خرابی کا اعلان کر رہا تھا۔جناح کی حالت سنبھلنے کے کوئی آثار نہ تھے۔۵،ستمبر کی رات کو قائد اعظم پر شدید نمونیہ کا حملہ ہوا۔تین دن تک ان کو شدید بخار رہا۔تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان کو بے چینی کے دورے پڑنے لگے۔ کرنل الٰہی بخش نے قائد اعظم کا معائنہ کیااور محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ قائد اعظم کے چند دن سے زیادہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘(۱۵۴)۔
لہٰذا اگلے دن قائد اعظم محمد علی جناح کو دوپہر دو بجے کوئٹہ ائر پورٹ سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی بھیج دیا گیا۔قریباً ساڑھے چار بجے قائد اعظم محمد علی جناح کا طیارہ مار
یپو ر کے فوجی ہوائی اڈے پر اتر گیا۔یہاں سے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر ایک ایمبولنس کے ذریعے کراچی کے گورنر ہاؤس لایا جا رہا تھا کہ راستے میں ان کی ایمبولنس خراب ہوگئی اور کسی پاکستانی کو یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کا عظیم قائداور ہر دل عزیز رہنما کس کسم و پرسی کی کیفیت سے دوچار ہے!! ائر پورٹ سے گورنر ہاؤس کا فاصلہ تقریباً۱۵، کلو میٹر تھا۔دوسری ایمبولینس کے تاخیر سے پہنچنے میں ائر پورٹ سے گونر ہاؤس تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔(۱۵۵)اس دوران محمد علی جناح پر مسلسل بے ہوشی طاری تھی۔جب ان کا معائنہ گورنر ہاؤس میں کیا گیا تو ان کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔اس طرح رات ۱۰۔بجکر بیس منٹ پر جب کرنل الٰہی بخش نے ان کی ’’نبض پر ہاتھ رکھاتووہ نہ ملی‘‘(۱۵۶)یوں مسلمانان ہند کا محسن ہندوستان کی آزادی اور تقسیمِ ہند کا نہ بکنے والا علمبردار اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر اپنے معبودِ حقیقی سے جا ملا ۔ان للہ وانا الیہ راجعون!برصغیر کی ملت اسلامیہ کا نجات دہندہ خود اس دنیائے فانی سے نجات حاصل کر کے ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سوگیا۔اور تاقیامت کراچی کے قائد آباد میں مقیم ہوا۔اللہ مغفرت فرمائے اس عظمت کے مینارکی
@Nimra Rashid
Bookmarks