google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: ڈاکٹر وزیر آغا کا برگد

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      ڈاکٹر وزیر آغا کا برگد




      رشید امجد
      آخری عمر میں وزیر آغااپنے کمرے تک محدود ہو گئے تھے۔ کہتے تھے، ’’میں نے اس کمرے کو اوڑھ لیا ہے، یہ اب میرا برگد ہے۔ ‘‘ اس برگد کے نیچے بیٹھ کر انہوں نے غور و فکر کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ انہوں نے اب نثر لکھنا چھوڑ دی تھی۔ کہتے تھے، ہاتھ کانپتا ہے۔ البتہ نظموں کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے ایک اہم مضمون لکھا جسے وہ اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ کا آخری باب کہتے تھے۔ کہنے لگے، ’’میری یہ کتاب تیس سال کے بعد مکمل ہوئی ہے۔‘‘ یہ مضمون جب کاغذی پیراہن میں چھپا تو مجھے فون کیا کہ اسے پڑھ کر ان سے بات کروں ۔ میرے پاس یہ پرچہ نہیں آیا۔ انہوں نے دو تین بار پوچھا، میں نے کہا، پرچہ ملا ہی نہیں۔ اسی دوران جمیل آذر سے پرچہ مل گیا۔ میں نے مضمون پڑھا۔ آغا صاحب نے برائن گرین کے بنیادی نظریے، کہ پلانک لینگتھ کے نیچے Cosmos کی چادر، مشتعل سلوٹوں سے بھرا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس پر زمان و مکاں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سٹرنگ تھیوری والوں نے اس بے مقام کا سراغ لگا کر Branesکو بھی دریافت کیا ہے۔ ان مختلف ابعاد Branes میں تین ابعاد کے حامل برین ہیں۔ ایک برین اس لئے قابل ذکر ہے کہ ہماری کائنات اسی کے اندر بند ہے۔ قابلِ ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ روشنی ایک برین سے دوسرے میں نہیں جا سکتی لیکن کشش (Gravity) ایک سے دوسرے ہی میں جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اولین صفت نور نہیں بلکہ کشش ہے جس کے ذریعے اس نے اپنی ساری مخلوقات کو اپنے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ پرانے مشرقی نظریات کے تحت یہ فکرہمہ اوست اور ہمہ از اوست کے فلسفے سے جا ملتی ہے۔ آغا صاحب کا خیال ہے کہ کشش ثقل دراصل انسلاک، وحدت اور محبت کی علامت ہے۔ ’’تخلیقی عمل‘‘ کے آخری باب میں وہ مصنف اور اس کی تخلیق کو اس تعلق کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے تحت مصنف اور تخلیق کا رشتہ اَٹوٹ ہے۔ یہ ساختیات کے اس نظریے کے برعکس ہے جس میں مصنف کو تصنیف سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ آغا صاحب نے ساختیات کے تصور کو اُجاگر کرتے ہوئے اس نکتہ پر محتاط رویہ اختیار کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون انہوں نے اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ کا آخری باب کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسے سوچنے اور لکھنے میں انہیں تیس برس لگے، فلسفیانہ تنقید کا ایک اہم حصہ ہے، میں اس بارے ان سے تفصیلی گفتگو کرنا چاہتا تھا لیکن آخری ملاقات میں موقع ہی نہیں ملا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آغا صاحب کی تنقید نے اُردو میں فلسفیانہ تنقید کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کا طریقۂ کار استخراجی کی بجائے استقرائی ہے۔ بطور مدیر وزیر آغا کے سفر کا آغاز ’’ادبی دنیا ‘‘ سے ہوا۔ انہوں نے ’’ادبی دنیا ‘‘ کوجدید فکری رویوں سے ہم آہنگ کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو ایک زمانے میں میرا جی نے کیا تھا۔ ادبی دنیا کے ادارتی دور میں مولانا سے بہت کچھ سیکھا۔ ’’اوراق‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کی پیشانی پر درج تھا، ’’مولانا صلاح الدین احمد کی یاد میں‘‘ اور یہ جملہ آخری پرچے تک موجود رہا۔ ’’اوراق‘‘ نے جدیدیت کی تحریک کو معتدل بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’’سوال یہ ہے ‘‘ میں اپنے دور کے اہم فنی و فکری موضوعات پر بحث کی جاتی تھی۔ میرا جی نے ’’اس نظم میں ‘‘ کے عنوان سے اپنے عہد کی نظموں کا تجزیہ کر کے جدید نظم کی تفہیم کی بنیاد رکھی تھی۔ ’’اوراق‘‘ میں نظموں کے تجزیاتی مطالعوں کے ساتھ نئے افسانوں کے تجزیاتی مطالعے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس سلسلے کا پہلا تجزیہ میرے افسانے ’’پچھلے پہر کی موت‘‘ پر تھا۔ ’’اوراق‘‘ کے اداریے ہر بار ہم عصر ادب کے کسی سوال پر بحث کا آغاز کرتے۔ ’’اوراق‘‘ نے اپنی اشاعتوں میں اپنے زمانے کی نئی نسل کو ہمیشہ اہمیت دی۔ ’’اوراق‘‘ جب بند ہوا تو میں نے پوچھا، ’’آپ نے ’’اوراق‘‘ کو بند کیوں کر دیا؟‘‘ کہنے لگے، دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ میں ’’اوراق‘‘ کے لئے موصول ہونے والی ہر تخلق کو خود پڑھتا تھا۔ کتابت اور پروف ریڈنگ کے بعد پریس جانے سے پہلے پورا پرچہ دوبارہ پڑھتا تھا، اب مجھ میں اس کی سکت نہیں۔ دوسرا یہ کہ اُس وقت میں خود ذراعت کا کام کرتا تھا اور ’’اوراق‘‘ کا خرچہ اٹھاتا تھا۔ اب میں کچھ نہیں کرتا، سارا کام سلیم کر رہا ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اسے کبھی یہ احساس ہو کہ میں اس کی محنت سے اپنا مشغلہ پورا کر رہا ہوں۔ ادبی پرچے ہمیشہ مددکارونا روتے رہے ہیں۔ آغا صاحب نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی دوستوں سے اس سلسلے میں کچھ کہا۔ ٭…٭…٭





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: ڈاکٹر وزیر آغا کا برگد

      Nice Sharing
      Thanks for sharing


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: ڈاکٹر وزیر آغا کا برگد






      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •