مستری بدھو نہایت شریف، محنتی اور دیانت دار انسان تھا۔ جب بھی اس سے ملاقات ہوتی نہایت خلوص سے پیش آتا۔ ایک دن ملا تو مجھ سے پوچھنے لگا ’’کہو میاں کہیں کام کر رہے ہو یا نہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’دو روز سے خالی ہوں‘‘۔ مستری بولا ’’دیکھو یونیورسٹی میں مدد لگی ہوئی ہے اور ہٹ پر ایک مزدور کی ضرورت ہے، بارہ آنے روز ملیں گے اگر جی چاہے تو سویرے ہی میرے ساتھ چلنا‘‘۔ میں نے حامی بھر لی اور دوسرے دن مستری بدھو کے ہمراہ یونیورسٹی پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ یونیورسٹی ہال کے شمال میں مسجد کے سامنے ایک پیپل کا درخت ہے اور اس کے نیچے کنویں پر ایک گور کھا قسم کا پستہ رہٹ لگا ہوا ہے۔ اس کی مال میں ڈولچیاں آویزاں ہیں جن میں قریباً ایک ایک بڑا لوٹا پانی آجائے۔ اس کے ساتھ ایک آہنی پہیہ لگا ہوا تھا، جسے اپنے ہاتھوں اور پائوں سے چلانا تھا،یعنی بیل کا کام انسان نے کرنا تھا۔ ذرا حوصلہ پست ہوا، لیکن دوسرے بیلدار کو دیکھ کر ڈھارس بندھی اور اسے پہیے کو چکر دے کر پانی نکالتے دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں وہ پسینہ میں شرابور ہو کر رہٹ سے ہٹ گیا اور اس کی جگہ میں اتر کر اسی طرح ہاتھ پائوں کی قوت سے رہٹ کھینچنے لگا۔ کام تو بہت مشکل تھا، مگر مجھے اس میں یہ سہولت نظر آئی کہ میں سستانے کے وقت مطالعہ کر سکوں گا۔ میں مزدور ضرور تھا، لیکن کبھی کبھی چھٹی کے بعد شام کو اپنے فکرو خیال کی دنیا میں خود کو آزاد اور با اختیار سا انسان محسوس کرنے لگا تھا۔ تمام دن رہٹ کھینچتے کھینچتے میرے بازو اور رانیں اکڑ گئیں اور میں پسلیوں میں دکھن ہی نہیں سوجن سی محسوس کرنے لگا۔ ایک زمانے کے بعد جب میں ممتحن کی حیثیت سے اپنا چیک وصول کرنے یورنیورسٹی آفس میں گیا تو مزنگ کے رہنے والے کئی لوگوں نے مجھے پہچا ن لیا اور شاہد صاحب نے بڑے تعجب سے پوچھا’’ اچھا جناب ! احسان دانش آپ ہیں؟‘‘ میں نے عرض کی جناب کی دعا سے میں ہی اس پنجاب یونیورسٹی کا مزدور ہوں جسے آپ گارا ڈھوتے، رہٹ کھینچتے اور پھر معماری میں لکھائی چھلائی کرتے دیکھتے رہتے تھے۔ انھوں نے کہا ’’بس اب آپ کو مر جانا چاہیے کیونکہ ایسی ترقی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، کمال ہے جہاں ایک شخص اینٹیں گارا ڈھوئے اور رہٹ کھچنے، وہیں ممتحن کی حیثیت بھی اختیار کر لے، یہ شاید اب تک ہندوستان بھر میں پہلی مثال ہے‘‘۔ (جہان ِدانش از احسان دانش) ٭…٭…٭
Bookmarks