احمد عقیل روبیؔ
پادری دوست نے ایک بار اس سے بڑے افسوسناک لہجے میں کہا: ’’کاش تم نے شادی کی ہوتی، تمہارے بھی دو چار بچے ہوتے۔‘‘ اس نے پوچھا: ’’ تو پھر کیاہوتا‘‘ ’’کم از کم آنے والی نسلوں تک تمہارا نام تو پہنچتا۔ تمہاری نسل تو پھلتی پھولتی‘‘۔ ’’یہ دونوں چیزیں میرے فن میں موجود ہیں جو ہر پل مجھے سرگرم عمل رکھتی ہیں۔ میں جو فن چھوڑ کر جائوں گا، یہی میرے بچے ہیں۔ اگرچہ یہ فن اس قابل نہیں لیکن میں اسی حوالے سے آنے والی نسلوں میں زندہ رہوں گا‘‘۔ اس نے اپنے فن کے بارے میں کم اندازہ لگایا۔ وہ اپنے اس عظیم فنی ورثے کے حوالے سے آج بھی زندہ ہے اور جب تک فنی باریکیوں کو سمجھنے والے زندہ ہیں وہ زندہ رہے گا۔ صدیوں سے دلوں میں زندہ رہنے والا یہ شخص مائیکل اینجلو ہے جو 1475ء میں کیپرس (Caprese) کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ اس قصبے کا مشیر تھا جسے پوڈیسٹا کہا جاتا تھا۔ مائیکل ابھی سات سال کا ہی تھا کہ اس کی ماں فوت ہوگئی۔ مائیکل اینجلو کو ایک سنگ تراش اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنا پڑا جہاں اس کے باپ کی پتھر کی فیکٹری تھی۔ اس کے والد نے 13 سال کی عمر میں اسے پڑھنے کے لئے فلورنس بھیجا مگر اسے پڑھائی لکھائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس نے تحریر کے مقابلے میں ڈرائنگ، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کو اہمیت دی اور مصوری سے اسے بہتر تصور کیا۔ مائیکل اینجلو کی نظر میں فطرت نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کر دئیے ہیں، اس کے نزدیک مجسمہ ساز کا یہ کام ہے کہ وہ انہیں تراش کے پتھروں کی قید سے رہائی دلائے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ مجسمہ ساز غیر ضروری پتھر الگ کر کے نقش و نگار نمایاں کرتاہے۔ سقراط نے برسوں پہلے یہی بات کہی تھی کہ پتھر میں ایک شکل موجود ہوتی ہے۔ مجسمہ ساز اسے پتھر سے باہر نکالتا ہے۔ مائیکل اینجلو نے اسی بات کی تائید کی ہے۔ اردو کا ایک نا معلوم شاعر اس بات کو اپنے شعر میں کچھ یوں لکھتا ہے۔ جب کسی سنگ سے ٹھوکر کھائی نا تراشیدہ ضنم یاد آئے ( کتاب ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس)
Bookmarks