ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
توانائی کے روایتی ذرائع کے علاوہ دیگر وسائل کو دو اقسام میں بانٹا جاتا ہے۔ لامحدود قسم میں شمسی توانائی آتی ہے۔ سورج سے آنے والی کرنوں کو توانائی کی دیگر اقسام میں بہ آسانی بدلا جا سکتا ہے۔ سمندری لہروں کی توانائی،ہوا کی قوت اور زمینی حدّت بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔توانائی کی یہ تمام اقسام تجرباتی سطح سے گزرنے کے بعد اب زیرِاستعمال ہیں۔ قابل تجدید ذرائع میں پانی سے پیدا شدہ بجلی،پیڑ پودوں سے حاصل توانائی نیز فضلے سے بنی گیس شامل ہیں۔ مختلف ممالک میں سائنسداں توانائی کے ان نئے وسائل کو بہتر سے بہتر اور قابل استعمال بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان تمام وسائل میں سے نیوکلیائی توانائی اور شمسی توانائی کافی ترقی یافتہ شکل اختیار کر چکی ہیں۔ انسانی اور جانوروں کے فضلے سے بنی گوبرگیس گائوں میں کافی مقبول ہو رہی ہے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ فضلے کو استعمال کر لیاجاتا ہے بلکہ گیس نکلنے کے بعد بچا ہوا فضلہ ایک عمدہ کھاد کا کام کرتا ہے۔ پیڑ پودوں کے فاضل حصوں یا کوڑے کرکٹ کو بھی اب توانائی کی مختلف شکلوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ ہمارا ملک توانائی کے معاملے میں منفرد ہے۔ یہاں ایک طرف ہزاروں سال سے استعمال ہونے والے روایتی ایندھن مثلاً لکڑی اور گوبر مستعمل ہیں، تو دوسری طرف جدید ترین نیوکلیائی بھٹیاں بجلی تیار کر رہی ہیں۔ یہاں اگرچہ شہروں میں پٹرول کا استعمال ہے، لیکن دیہاتوں میں اب بھی ایندھن جنگلوں سے سمیٹ کر لایا جاتا ہے۔ اوسطاً ایک دیہاتی عورت روزانہ تین گھنٹے ایندھن اکٹھا کرنے میں لگاتی ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ اب لکڑی جلانے کا رواج کم ہو چلا ہے لیکن اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اب بھی گھروں میں استعمال ہونے والی توانائی کا 60 فیصد حصہ لکڑی اور گوبر وغیرہ سے ہی آتا ہے۔ توانائی کی ان اقسام کو غیرتجارتی کہا جاتا ہے جبکہ کوئلہ،پٹرولیم، بجلی، گیس اور نیوکلیائی توانائی تجارتی قسم کے زمرے میں آتی ہیں۔ گذشتہ تین سالوں کے دوران ہمارے ملک میں بجلی کا استعمال 10 فی صد سالانہ کی اوسط رفتار سے بڑھا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں استعمال ہونے والی توانائی کی سب سے مقبول عام قسم ہے۔ مارچ 1988ء میں لیے گئے ایک جائزے کے مطابق ہمارے ملک میں 54246 میگاواٹ صلاحیت کے بجلی گھر کام کر رہے ہیں جنہوں نے گذشتہ سال 202 ارب یونٹ بجلی تیار کی لیکن بجلی کی اتنی بڑی مقدار بھی ہماری ضروریات کے لحاظ سے کم تھی۔ گذشتہ سال یہ کمی لگ بھگ 11 فیصد تھی۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارا پسندیدہ ایندھن بھی پٹرول ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت پٹرولیم اور گیس کے قدرتی ذخائر بالترتیب 5810 لاکھ ٹن اور 541 ارب مکعب میٹر ہیں۔ ہماری موجودہ سالانہ پیداوار لگ بھگ 320 لاکھ ٹن پٹرولیم اور .5 9 ارب مکعب میٹر گیس ہے۔تیل کی اتنی مقدار نکالنے کے بعد بھی ہم کو 160-170 لاکھ ٹن تیل ہر سال باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں لگ بھگ 156 ارب ٹن کوئلہ زمین کے سینے میں پوشیدہ ہے۔ اس میں سے تقریباً 1800 لاکھ ٹن کوئلہ ہم ہر سال نکال لیتے ہیں۔ لکڑی کی سالانہ اوسط کھپت 1460 لاکھ ٹن ہے جو کہ 2004-5 ء کے درمیان 2590 لاکھ ٹن ہو جائے گی۔توانائی کے مشاورتی بورڈ کے اندازے کیمطابق 2004-5 ء کے دوران ہم کو 4500 لاکھ ٹن کوئلہ 940 لاکھ ٹن تیل اور 654 ارب یونٹ بجلی درکار ہو گی۔ توانائی کی ضرورت اور فراہمی کے درمیان بڑھتی ہوئی اس خلیج کو روکنے کے صرف دو طریقے ہیں، اول یہ کہ توانائی کے استعمال میں بے حد کفایت شعاری سے کام لیا جائے اور دوسرے یہ کہ توانائی کے دیگر ذرائع تلاش کیے جائیں تاکہ آنے والی صدی میں ہم توانائی کے قحط سے دوچار نہ ہوں۔
Bookmarks