شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھےابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیاابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھےتمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالیکلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھےتمام عمر وفا کے گنہگار رہےیہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھےشبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دیپہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھےوہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیارجو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھےنئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میںہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھےیہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میںپرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھےندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھیکہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے
Bookmarks