محمد سعید جاوید
ابھی مغرب کی اذان میں کچھ وقت تھا۔ عبدو نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے قاہرہ کی ایک بڑی اور قدیم مسجد دکھائے گا۔ یہ عظیم الشان مسجد اور مدرسہ سلطان حسن کہلاتا ہے۔ بڑی ہی پُروقار عمارت تھی، جو وہاں بیان کی گئی تاریخ کے مطابق 1360 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی۔ مسجد کا مرکزی ہال بہت وسیع و عریض ہے۔ یہ دنیا کی چند بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ عبدو نے اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بے تحاشہ تعمیری نقائص کی وجہ سے یہ مسجد ہمیشہ جان لیوا حادثوں کی وجہ بنی رہی۔ اس کے چاروں کونوں پر دو سو فٹ اونچے مینار تعمیر ہونے تھے۔ جن میں سے ابھی دو ہی مکمل ہوئے تھے کہ ایک روز اچانک اس کا ایک مینار زمین بوس ہوگیا اور اپنے ساتھ تین سو کے قریب نمازیوں کی جانیں بھی لے گیا۔ ابھی لوگ اس صدمے سے باہر بھی نہ نکلے تھے کہ دوسرا مینار بھی نیچے آن پڑا۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی۔ بعد ازاں مسجد کا ایک گنبد بھی بیٹھ گیا اور کئی لوگ اس کے نیچے دب کر جاں بحق ہوگئے۔ بڑا جانی نقصان ہوگیا تھا۔ لہٰذا فوری طور پر مسجد میں تعمیر کا باقی ماندہ کام منسوخ کر کے مسجد کے تعمیراتی نقشے نئے سرے سے بنائے گئے اور یوں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اپنی خوبصورتی اور وسعت کی بدولت یہ مسجد سیاحوں کے لئے بڑی کشش کا باعث ہے اور تقریباً ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح تھوڑا سا وقت نکال کر اس مسجد کو ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاحوں کی آمدو رفت کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا ہے۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی مغرب کی اذان ہوئی اور اس کی خوبصورت اور مسحور کن آواز نے ایک سماں باندھ دیا اور لوگ جوق در جوق اندر آنے لگے۔ (کتاب مصریات سے ماخوذ) ٭٭٭
Bookmarks