بسم اللہ الرحمن الرحیم
خاص کی خاص بات
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي صلى الله عليه وسلم بِثَلاثٍ : صِيَامِ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ , وَرَكْعَتَيْ الضُّحَى , وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ .
( صحيح البخاري : 1178 ، التهجد – صحيح مسلم : 721، المسافرين )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی :
۱- ہر مہینے تین دین کے روزے رکھنے کی،
۲- چاشت کی دو رکعتیں نماز پڑھنے کی ،
۳- اور یہ کہ سونے سے قبل وتر پڑھ لیا کروں ۔
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے بندوں پر پانچ وقت کی نمازیں اور ایک ماہ کا روزہ فرض کیا ہے ،جنہیںاسلام کا رکن ہونے کی حیثیت حاصل ہے ،لیکن ان فرائض کے ساتھ ساتھ کچھ نوافل کا بھی حکم دیا ہے جن کا مقصد تربیت ، تزکیہ نفس ، فرض عبادات کیلئے نشاط ، فرض نمازو روزہ میں وارد نقص کی تکمیل اور بعض مشکل اور غیرمقدور عبادات جیسے جہاد و صدقہ وغیرہ میں تقصیر و عدم امکان کا کفارہ ہے ۔
زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی حافظ حدیث حضرت ہریرہ رضی اللہ عنہ ، اسی طرح حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ [ صحیح مسلم :722 ] اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ [سنن النسائی ] کو ایسی ہی تین باتوں کی خصوصی وصیت فرمائی ہے اور ان کے ذریعہ امت کے ہر فرد کو یہ وصیت ہے ۔
[۱] ہر ماہ تین دن کا روزہ :
روزہ بڑی اہم عبادت ، رب کائنات کو بہت ہی محبوب، جنت میں داخلہ کا ایک آسان راستہ اور جہنم سے چھٹکارا کے لئے ایک اہم عمل ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہ کو خصوصی ہدایات تھی کہ وہ بکثرت روزہ رکھا کریں اوراگر بکثرت روزہ نہیں رکھ سکتے تو ہر ماہتین دن کا روزہ تو نہ چھوڑیں کیونکہ اللہ تعالی کے فضل سے ایک نیکی کا اجر دس کے برابر ہے ، اس طرح گویا تین دن روزہ رکھنے کے عوض بندے کو تیس دن یعنی پورے ماہ روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ، جیسا کہ ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا سارا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔
{ بخاری و مسلم } ۔
بہتر تو یہ ہے کہ یہ تین دن ہر ماہ کے 13، 14 ، 15 ، تاریخوں میں رکھے جائیں جنہیں ایام بیض کہا جاتا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے ان تاریخوں میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے اور خودبھی ان تاریخوں میں روزہ رکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔
{ سنن الترمذی : 1761 - سنن ابو داود : 2449 } ۔
[۲] چاشت کی نماز : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تم میں سے ہر آدمی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے ذمے اس کے ہر جوڑ پر صدقہ ہوتا ہے، پس ہر ایک بار سبحان اللہ کہناصدقہ ہے ، ہر بار الحمد للہ کہنا صدقہ ہے ، ہر مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے ، ہر مرتبہ اللہ اکبرکہنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان کے مقابلہ میں چاشت کی دو رکعتیں بھی کفایت کرتی جاتی ہیں ۔
{ صحیح مسلم : 720 } ۔
چاشت کی نماز کم از کم دو رکعت ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیثوں میں ہے اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ثابت ہے ،جیسا کہ صحیحین میں حضرت ام ہانی کی روایت ہے
۔ { صحیح بخاری : 1176 – صحیح مسلم : 336 }
البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر کم از کم چار رکعت پڑھتے تھے،چنانچہ ام المومنینحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمچاشت کی چار رکعتپڑھتے تھے اور جو اللہ چاہتا تو زیادہ بھی ادا کرلیتے تھے ۔
{ صحیح مسلم : 719 } ۔
[۳] سونے سے قبل وتر : وتر کی نماز سنت موکدہ بلکہ تمام نفلی نمازوں میں سب سے زیادہ موکدہ ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے ، ایک حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نماز وتر فرض نمازوں کی طرح لازمی نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی وتر[ طاق ] ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے، پس اے اہل قرآن تم وتر پڑھا کرو ۔
{ ابو داود : 1416- الترمذی:453 }
وتر کی نماز کا وقت نماز عشا کے بعد سے طلوع فجر تک ہے ، البتہ اگر کوئی شخص تہجد پڑھنا چاہتا ہے اور غالب گمان ہے کہ وہ آخری شب میں بیدار ہوگا تو اسے وتر کی نماز تہجد کے بعد پڑھنی چاہئے اور جو شخص تہجد نہیں پڑھنا چاہتا یا گہری نیند والا ہونے کی وجہ سے رات میں بیدار ہونے کی امید کم ہے تو اسے سونے سے قبل وتر کی نماز پڑھ لینی چاہئے، ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ جس کو اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر کو نہیں اٹھ سکے گا تو وہ رات کے اول حصے میں وتر پڑھ لے اور جس کو رات کے آخر میں اٹھنے کی امید ہو تو وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے، اس لئے کہ رات کے آخری پہر میں پڑھی گئی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، اور یہ افضل بات ہے ۔
{ صحیح مسلم : 755 } ۔
وتر کی نماز کم از کم ایک رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے اور آخر میں ایک رکعت پڑھی جائے ، نیز تین رکعتیں اور پانچ رکعتیں ایک تشہد اور ایک سلام سے بھی پڑھی جاسکتی ہیں ،ا لبتہاگر سات یا نو رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھنی ہیں تو چھٹی اور آٹھویں رکعت میں بیٹھ کر تشہد کریں اور بغیر سلام پھیرے اٹھ کر ساتویں اور نوویں رکعت پڑھیں گے ۔
فوائد :
1) امت کے کسی ایک فرد کے لئے حکم پوری امت کیلئے ہے ۔
2) ہر ماہ تین روزے کی اہمیت اور نماز چاشت اور وتر کی تاکید ۔
3) وتر کی نماز طلوع فجر سے پہلے ہی پڑھ لینی چاہئے ۔
ختم شدہ
Similar Threads:
Bookmarks