google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    Closed Thread
    + Post New Thread
    Page 1 of 2 12 LastLast
    Results 1 to 10 of 16

    Thread: علامہ محمد اقبال

    Hybrid View

    1. #1
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,203
      Threads
      2235
      Thanks
      931
      Thanked 1,366 Times in 867 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7965 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Man علامہ محمد اقبال

      السلام علیکم
      شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے نام یہ تھریڈ۔
      ان سے متعلقہ مواد شیئر کیجیئے




      حکیم الامت علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین

      ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجۂ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

      آپ کے کچھ اشعار

      علامہ اقبال کے سینکڑوں اشعار مشہور ہوئے ہیں،علامہ اقبال کے سارے کلام میں سے شاذ ہی آپ کوئی ردی شعر نکال پائیں،یہاں پر اقبال کے مشہور اشعار پیش کیئے جا رہے ہیں
      ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
      ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی

      خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
      خودی ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ

      ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
      مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

      واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
      اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

      لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
      زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

      یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
      یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

      یا رب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
      جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

      ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
      ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں

      ر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
      گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

      آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
      وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

      انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
      یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

      وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
      اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر

      عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
      نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

      آنکھ جو کچھ دیکھتى ہے, لب پہ آسکتا نہیں
      محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گى

      انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
      شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

      تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
      ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

      مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
      تو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھ

      دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
      پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

      تُو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
      میں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میں

      خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
      خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

      مٹا ديا مرے ساقی نے عالم من و تو
      پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ھو'

      ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کی رفيق
      يہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طريق

      عقل گو آستاں سے دور نہيں
      اس کی تقدير ميں حضور نہيں

      نگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہے
      خراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہے


      کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی
      گستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
      خاکی ہے مگر اس کے انداز ہيں افلاکی
      رومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندی
      سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
      آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی

      کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
      مری نگاہ نہيں سوئے کوفہ و بغداد

      لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
      ہاتھ آ جائے مجھے ميرا مقام اے ساقی

      یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
      قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

      اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
      مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله

      کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
      مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

      مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
      نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے

      دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
      کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

      آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
      اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

      کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
      بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے

      امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
      یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں






      Similar Threads:





    2. #2
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور روحانیت
      نو،نومبر اقبال ڈے کی مناسبت سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقام پر ایک خوبصورت تحریر​


      سید محمد یوسف عرفان

      محققینِ اقبال اور علماء و صوفیاء کا یہ یقین ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شعری و نثری تعلیمات بزرگان دین اور صوفیائے صالحین کے فیضان کی مرہون منت ہیں۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ عالمی علم و ادب کی شاید واحد شخصیت ہیں جن کے کلام نے کروڑوں مسلمانان ہند بلکہ امت مسلمہ کو غلامی، غفلت اور قعر مذلت سے نکال کر جرات، ہمت، غیرت، حریت اور عمل پیہم کا پیغام دیا جو بعد ازاں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا باعث بنا۔

      بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1940ء کو مینار پاکستان کے مقام پر قرار داد پاکستان منظور ہونے کے بعد عالمگیری مسجد لاہور سے متصل مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پُر انوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :

      ’’اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے مسلمانان ہند کے لئے وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے کہ ہم کریں۔ حضرت قائداعظم نے مزید فرمایا کہ ’’اقبال میرے دوست، راہنما اور روحانی مرشد تھے‘‘۔

      (مطلوب الحسن، سید، پاکستان ناگزیر تھا)

      مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس جناب غلام مرشد (مرحوم) نے استاد گرامی پروفیسر مرزا محمد منور کے استفسار کے جواب میں کہا تھا کہ حضرت قائداعظم کا جسم ناتواں اور دھان پان تھا مگر ان کے وجود میں کم از کم سات ولیوں کی قوت تھی۔ یہ حضرت قائداعظم ہی تھے جنہوں نے مسلمانان ہند کو حاکم وقت صلیبی انگریز اور اسلام دشمن مکار ہندو کی دائمی اکثریت کی غلامی سے نکال کر آزادی کے تخت پر براجمان کیا۔ اسلامی تعلیمات میں ایک غلام (خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو) کو آزاد کرنے کا بے حد اجر ہے تو کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کروڑوں غلام، مسلمانوں کو آزادی دلانے والا، فیضان الہٰی اور محبوب الہٰی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم سے محروم تھا؟

      علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے احباب اور محققین اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ صادق اپنے والد گرامی نور محمد سے وراثت میں ودیعت ہوا ہے اور ان کے علم و فن کے باعث یہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لامحدود وسعتوں، پہنائیوں اور بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا جس کو حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اور اسی وصف یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت، امامت اور صداقت کی بلا حجت تصدیق اور جانثاری نے انہیں ’’امام الاصفیاء‘‘ کا مقام عطا کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

      بمصطفٰی برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست
      اگر باو نرسیدی تمام بو لہبی است​


      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ’’دل بیدار‘‘ اپنے والدین بالخصوص اپنے صاحب دل صوفی باپ نور محمد سے وراثت اور تربیت سے پایا تھا۔ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین رقم طراز ہیں کہ ’’ان (علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ) کی بیعت ان کے والد کے وسیلہ سے تھی۔ ان کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے، جن کا سلسلہ قادریہ تھا وہ انہی سے بیعت تھے‘‘۔ (نورالدین، ابوسعید، ڈاکٹر، اسلامی تصوف اور اقبال، ص 234)

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ رسمی طور پر تو سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے جیسا کہ وہ خود 12 نومبر 1916ء کو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام مکتوب میں بھی لکھتے ہیں کہ :

      ’’یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے، جس میں خود بیعت ہوں‘‘۔

      مگر روحانی طور پر وہ عالم اسلام کے بہت بڑے صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے کلام میں جابجا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں اور اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے ان کو روحانی فیضان پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور امت مسلمہ و مرحومہ کی بیداری اور احیاء کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ہندوستان میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، اکبر الہ آبادی کو اپنے مکتوب محررہ 6 اکتوبر 1911ء میں اپنا مرشد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

      ’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں‘‘۔

      فی الحقیقت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عالم اسلام کے ہر اس صوفی، شاعر، ولی اللہ کی عزت کی اور اس سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا جس نے امت مسلمہ کے مجموعی مفاد اور مسلمانوں کی انفرادی حیات بخش تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اولیاء اللہ کے مزارات کی نہ صرف زیارت کی ہے بلکہ جابجا ان کی مدح و ثناء بھی کی ہے۔ آپ کے مدحیہ اشعار آپ کی صوفیا اور اولیاء سے محبت و عقیدت کا اظہار ہیں۔ گو آپ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے مگر آپ نے باقی تین سلاسل کے اولیاء صوفیاء اور مجذوبوں سے بھی قلبی رشتہ و رابطہ کا بار ہا اظہار کیا ہے۔ آپ کے قلبی ’’تار برقی‘‘ مراقبات کی شکل میں حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، پیر سنجر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، حضرت سید محمد میاں میر، بوعلی شاہ قلندر رحمہم اللہ اور کئی نامور اور غیر معروف اولیاء اللہ سے رہا ہے۔

      سحر خیزی کے حوالے سے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :

      ’’بندۂ روسیا کبھی کبھی تہجد کے لئے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گذر جاتی ہے۔ سو خدا کے فضل و کرم سے تہجد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کروں گا کہ اس وقت عبادت الہٰی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے کیا عجب کہ دعا قبول ہوجائے‘‘۔ (اقبال بنام شاد، ص 19

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقامات، احوال، سوز و گداز، سرور و مستی، جذب اور وجدان و سلوک کے سلسلے میں کئی واقعات مختلف کتابوں میں مرقوم ہیں۔ فقیر سید وحیدالدین اپنی کتاب ’’روزگار فقیر‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ
      ’’میرے والد فقیر نجم الدین ایک دن اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں پہنچے تو اقبال رحمۃ اللہ علیہ بولے کہ آج کل حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں کوئی بہت روشن ضمیر بزرگ آئے ہوئے ہیں ان سے ملنے چلیں، میں ان سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب مسلمانوں سے خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز ہوں گے تو آج کل اتنے ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ اقبال کے تساہل کے باعث یہ ہوا کہ یہ دونوں نہ صبح کو وہاں پہنچ سکے نہ شام کو، آخر بات دوسری صبح کے لئے قرار پائی کہ کل چلیں گے۔ دوسرے دن فقیر نجم الدین اقبال کے یہاں ذرا دیر سے پہنچے، اس خیال سے کہ ان کے جلدی چلنے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن یہ دیکھ کر انہیں سخت حیرت اور پریشانی ہوئی کہ اقبال کا رنگ زرد ہے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور وہ شدید تفکر اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ نجم الدین نے پوچھا کہ خیر تو ہے تو اقبال بولے کہ :

      ’’آج صبح میں یہیں بیٹھا تھا کہ علی بخش نے آ کے اطلاع دی کہ کوئی درویش صفت آدمی ملنا چاہتا ہے میں نے کہا، بلالو۔ ایک درویش صورت اجنبی میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ کچھ وقفے کے بعد میں نے کہا، فرمایئے آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟ اجنبی بولا : ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے، میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں اور اس کے بعد مثنوی کا مشہور شعر پڑھا :

      گفت رومی ہر بنائے کہنہ کہ باداں کنند
      توندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند​


      (رومی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جس پرانی عمارت کو آباد کرتے ہیں تو نہیں جانتا کہ پہلے اس بنیاد کو ویران کردیتے ہیں)۔
      کچھ پوچھئے نہیں کہ مجھ پر کیا گذر گئی، چند لمحوں کے لئے مجھے قطعی اپنے گرد و پیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کے لئے دوبارہ نظر اٹھائی لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ علی بخش کو ہر طرف دوڑایا لیکن کہیں سراغ نہیں ملا‘‘۔ (روزگار فقیر، ص 32)

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا بزرگان دین، اولیاء اللہ اور صوفیاء رحمہم اللہ سے روحانی رابطہ اور رشتہ تادم مرگ رہا۔ بلکہ مذکورہ روحانی بزرگ سے ملاقات کے حوالے سے راقم کو عاشق اقبال اور استاد گرامی جناب پروفیسر مرزا محمد منور کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔

      واقعہ یوں ہے کہ تہجد کے وقت علی بخش نے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بتایا کہ ایک خوش شکل، پُر نور چہرے والا نوجوان آپ سے ملنے کا خواہشمند ہے، میں نے اسے طلوع سحر تک انتظار کا کہا ہے مگر وہ نوجوان اصرار کر رہا ہے کہ ہم نے اقبال سے ابھی ملنا ہے، تم انہیں ہمارے آنے کی اطلاع کرو۔ علی بخش کے اس پیغام پر آپ خلاف معمول اپنے سب کام چھوڑ کر اس نوجوان کے استقبال کے لئے باہر دروازے پر تشریف لے آئے اور اس کے پیچھے پیچھے نہایت مودبانہ چلتے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ اپنے کمرے میں لے آئے۔ علی بخش کے لئے آپ کا اس نوجوان کے پیچھے یوں مودبانہ چلنا حیران کن تھا کیونکہ علی بخش نے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہر امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، معروف وغیر معروف حتی کہ جواہر لال نہرو کو بھی مؤدب پایا تھا۔ علی بخش کی حیرانی کی انتہاء نہ تھی جب حضرت علامہ نے اس پُر نور نوجوان کو بڑے احترام کے ساتھ اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود ان کے پاؤں کی جانب زمین پر بیٹھ گئے اور دونوں نے آپس میں باتیں شروع کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت علامہ نے علی بخش کو بلایا اور محترم نوجوان کے لئے تازہ لسّی لانے کے لئے کہا۔ علی بخش نے کہا کہ میں اس سوچ میں گم تھا کہ اس وقت لسی کی کون سے دکان کھلی ہوگی۔ علی بخش کو عجیب حیرت اور خوشی ہوئی کہ گھر سے باہر نکلتے ہی سامنے ایک شاندار دودھ دہی کی دکان کھلی ہے۔ علی بخش نے اس سے لسی لی اور پیسے ادا کرنے لگا تو دودھ دہی والے پُرنور نوجوان نے کہا کہ ’’پیسے رکھو اور لسّی لے جاؤ، اقبال سے ہمارا حساب چلتا ہے‘‘۔ اذان سحر کے وقت وہ نوجوان چلے گئے۔ علی بخش کے بقول کہ اس نے نوجوان موصوف کے پیچھے چلنا چاہا مگر وہ گھر سے نکلتے ہی نظر سے اوجھل ہوگئے۔ گھر کے سامنے دودھ دہی کی دکان پر نظر ڈالی تو وہ بھی موجود نہیں تھی۔ حضرت علامہ سے پوچھنے کہ ہمت نہ ہوئی۔ لیکن میرے چہرے کی حیرانی اور خاموش استفسار واضح تھا۔ چند دن بعد حضرت علامہ سے پوچھنے کی ہمت کر لی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہ آپ نے ایک نوجوان کو اپنی جگہ پر بٹھا کر خود ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ جو نوجوان اندر تشریف لائے تھے وہ پیر سنجر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تھے اور جن نورانی نوجوان سے تم نے لسّی لی تھی وہ حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ داتا گنج بخش تھے۔

      حضرت علامہ محمد اقبال کی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سے محبت و عقیدت کے حوالے سے سید عبداللہ قادری نے مذکورہ بالا واقعہ کے علاوہ اپنے مضمون بعنوان ’’اقبال بحضور سید ہجویر‘‘ میں مزید لکھا ہے کہ :

      ’’آخری عمر میں تو حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فنا فی الگنج بخش ہو کر رہ گئے تھے۔ ان دنوں میں ایک تو وہ کشف المحجوب کا بکثرت مطالعہ کرتے اور دوسرے 1936ء سے لے کر اس وقت تک جبکہ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئے، ہر روز صبح کی نماز اپنے ایک عزیز ڈاکٹر نیاز احمد کی ہمراہی میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ میں ادا کرتے اور معمول میں کبھی ناغہ نہ ہوا۔ ہاں اگر وہ لاہور سے باہر گئے ہوں تو علیحدہ بات ہے‘‘۔

      فقیر وحیدالدین نے اپنی کتاب میں جو دوسرا واقعہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں اقبال انار کلی کے دو منزلہ مکان میں رہتے تھے۔ ایک رات کو سوتے سوتے ان کی آنکھ کھل گئی اس وقت انہوں نے اپنی طبیعت میں شعر گوئی کی کیفیت محسوس کی۔ فقیر وحیدالدین لکھتے ہیں :

      ’’ڈاکٹر صاحب مکان کی دوسری منزل پر استرحت فرما تھے، پاس نہ کاغذ تھا، نہ پنسل۔ چپ چاپ اٹھے، لالٹین ہاتھ میں اٹھائی اور سیڑھیوں سے قدرے تیزی کے ساتھ اتر کر نچلی منزل میں پہنچے۔ لالٹین ایک طرف رکھ دی۔ کاغذ اور قلم سنبھالا اور جس قدر اشعار اس وقت موزوں ہوتے گئے، انہیں قلم بند کرتے گئے۔ یہاں تک کہ نزول شعر کی یہ کیفیت اختتام کو پہنچی۔ انہوں نے بالائی منزل پر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک سفید ریش، طویل قامت اور درویش صفت بزرگ نظر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے حیرت و استعجاب کے انداز میں دریافت کیا کہ آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ درویش نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے جلدی جلدی کہا : پانچ سو آدمی پیدا کرو، پانچ سو آدمی پیدا کرو۔ یہ کہتے ہوئے وہ بازار کی جانب کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھتے گئے حالانکہ اس طرف کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لالٹین اٹھائی اور زینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں گھپ اندھیرا تھا کہا، چلیے میں آپ کو راستہ دکھاؤں اور نیچے لے چلوں لیکن اس بزرگ نے ڈاکٹر صاحب کی اس پیش کش کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اپنا وہی فقرہ اسی جوش اور تاکید کے ساتھ دہراتے ہوئے نظر سے اوجھل ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب زینے کی طرف سے سیڑھیاں طے کر کے بازار میں آئے اور دور تک دیکھا مگر بزرگ کا کہیں پتہ نہ تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو رات میں گشت کرنے والا کانسٹیبل نظر آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ تم نے اس وضع قطع، چال ڈھال اور حلیہ کا کوئی آدمی تو نہیں دیکھا۔ کانسٹیبل نے نفی میں جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب مایوس ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور پھر بستر پر سوگئے۔ صبح کو جب بیدار ہوئے تو رات کا واقعہ ذہن میں بالکل تازہ تھا مگر پھر خیال آیا کہ شاید انہوں نے خواب دیکھا ہے۔ لیکن جب نچلی منزل میں آ کر رات کے لکھے ہوئے اشعار موجود پائے اور قریب ہی لالٹین رکھنے کا نشان بھی ابھرا ہوا تھا تو ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ وہ خواب تھا یا بیداری تھی بہر حال جو حالت بھی تھی، اس کا ایک حصہ حقیقت بن چکا تھا‘‘۔

      اس واقعہ کے بعد جب اقبال موسم گرما کی تعطیلات میں سیالکوٹ گئے تو انہوں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا اور پوچھا کہ پانچ سو آدمی تیار کرنے سے اس درویش کی کیا مراد تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس کی منشاء کے بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتا البتہ یہ کہتا ہوں کہ اگر پانچ سو آدمی تیار نہیں کرسکتے تو پانچ سو آدمی تیار کرنے والی پانچ سو اشعار کی کتاب ہی لکھ دو۔ چنانچہ اقبال نے اپنی مشہور مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘‘ جس میں پانچ سو سے زیادہ اشعار ہیں، لکھی۔

      (اقبال ایک صوفی، ص 152،155)

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کشف کے ضمن میں خود 4 اپریل 1916ء کو مہاراجہ سرکشن پرشاد کو اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں :

      ’’یہ مثنوی جس کا نام ’’اسرار خودی‘‘ ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔۔۔ یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے، اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالف بار آور ہوگا۔ مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔

      (روح مکاتیب اقبال، ص147، بحوالہ اقبال ایک صوفی شاعر، ص 155)

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی پوری سوانح حیات مختلف روحانی واقعات، مکاشفات، مشاہدات اور تجربات سے بھری پڑی ہے۔ آپ اسلامی تصوف کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے علمی و فکری، روحانی اور عملی طور پر تصوف کی نئی راہیں، نئے مقاصد اور نئی جہات متعین کی ہیں۔ آپ شخصی، قومی و ملی اور روحانی زندگی میں ’’Trend Setter‘‘ یعنی نیا رخ، انداز اور لباس متعین کرنے والے ہیں۔

      قرآن کی رو سے تزکیہ نفس دل کی صفائی اور تطہیر قلب کا نام ہے۔ جس کا دل فنا فی اللہ ہے، وہی اللہ کی مخلوق اور اس کی بہترین امت کا مثالی اور بہترین فرد بن کر امت مسلمہ بلکہ تمام مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے۔

      مارچ 1907ء وہ سال ہے جس میں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک روحانی تجربہ سے گزرے اور چند پیش گوئیاں کیں جو اشعار کی شکل میں آپ کی زبان پر وارد ہوئیں۔ اس نظم میں آپ نے چار پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو ان کی علمی و فکری، فنی اور روحانی زندگی کا محور ہیں۔

      اول : آپ نے اس نظم میں یورپی تہذیب و تمدن کے بودے پن اور مادہ پرستانہ بربادی کا ذکر کیا ہے۔

      دوم : اسی نظم میں آپ نے احیائے اسلام کی نوید دی ہے۔

      سوم : احیائے اسلام کی علمی و فکری، دینی و روحانی اساس کا ذکر کیا ہے۔

      چہارم : آپ نے احیائے اسلام کی راہ میں موجود تاریکی کو دور کرنے کے لئے اپنے مصمم ارادے اور استقامت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اور میرے شعر اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ نظم درج ذیل ہے :

      سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
      جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر استوار ہوگا

      نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
      سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

      دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
      کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہوگا

      تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
      جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

      سفینہ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
      ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

      خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
      میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

      میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
      شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا​


      علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقی تصوف کی وضاحت کرتے ہوئے 9 مارچ 1916ء کو شاہ سلیمان پھلواری کو خط لکھا کہ ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کو کرامت سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیئے ہیں جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف‘‘۔

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فلسفہ خودی اسی ’’گسستن‘‘ یعنی ’’تو عین ذات می نگری درتبسمی‘‘ کی تشریح و توضیح ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں انفرادی خودی کے تحفظ کا درس دیا ہے وہاں قومی و ملی خودی یعنی غیرت، حریت، ہمت اور جرات کا پیغام بھی دیا ہے اور یہی وہ درس تھا جو برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا پیش خیمہ بنا۔

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد اور بعد ازاں بعض خطوط میں برملا کہا ہے کہ شمالی ہند کے مسلمان باشندوں کے ذمے اللہ تعالیٰ کوئی بڑا کام لگانے والا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے شعر اس الوہی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں ممد و معاون ہوں۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں عالمی اور بالخصوص اسلامی دنیا کے احوال بیان کئے ہیں وہاں اپنی روحانی چشم تصور سے آئندہ ہونے والے عالمی واقعات کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ جس میں سے ’’مشتے از خروارے‘‘ کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے طلوع اسلام (بانگ درا) میں کہا ہے کہ

      بمشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور
      تصرف ہائے پنہانش بچشمم آشکار آمد​


      اسی طرح حضرت علامہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم اس خطہ کے مسلمانوں کی حالت زار پر ہے اور یہ مسلمانان ہند جلد غیر ملکی تسلط سے نجات پائیں گے اور آزادی سے بہرہ ور ہوں گے اور ان کی آزادی اسلامی نشاۃ ثانیہ کی خشت اول ہوگی۔

      خضرِ وقت از خلوتِ دشتِ حجاز آید بروں
      کارواں زیں وادی دور و دراز آید بروں​


      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں یورپی تہذیب کے زوال کی پیشگوئی کی تھی وہاں روس کے ملحدانہ اشتراکی نظام کے انہدام کا ذکر بھی اپنے خطوط میں کیا ہے کہ روسی اشتراکی نظام غیر فطری ہے۔ لہذا خود روسی عوام میں بھی رسوخ نہیں پاسکے گا۔ حضرت علامہ محمد قبال رحمۃ اللہ علیہ نے فطرت کے مقاصد کے حصول کے لئے صحرائی اور پہاڑی افراد کی اہمیت بیان کی ہے کہ

      فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
      یا بندہ صحرائی یا بندہ کوہستانی​


      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کلید ایشیا یعنی ایشیا کی آزادی کے لئے پاکستان اور افغان پہاڑی باشندوں اور صحرائے عرب کے فکر و نظر اور بود باش کو اہم قرار دیا ہے۔ نیز آپ نے حرم سے دور از خلوت دشت حجاز یعنی خطہ ہند کو احیائے اسلام کا مرکز تصور کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مسلمانان ہند کے حوالے سے یہ پیشگوئی بھی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور ہندوستان میں ایک علیحدہ اسلامی نظریاتی ریاست وجود میں آئی جس کا بنیادی مقصد نظام اسلام کی بحالی تھا۔ نیز یہی وہ ریاست ہے جس نے اسلام کے رکن رکین جہاد کو از سر نو زندہ کیا اور عالم اسلام کو جہاد کے ذریعے عملی اتحاد کا باعث بنایا۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کی جو راہ متعین کی ہے وہ فنا فی اللہ کی نہیں ہے۔ بقول حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

      تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
      لیلیٰ بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول​


      حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود روحانی سرشاری اور مستی میں غرق ہونا نہیں ہے بلکہ روحانی مستی میں مسرور رہ کر عالم انسانیت کی روحانی بلندی اور بالیدگی کی تبلیغ اور ترویج کرنا ہے۔

      اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
      تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن​


      (بشکریہ معارف اولیاء)

      سید محمد یوسف عرفان



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      تعلیمات اقبال مشعل راہ کی ضمانت ہے| عاقل حسین استوری




      آج علامہ اقبال کا یوم ولادت کا دن ہے ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ کے لوئر مڈل کلاس کے تاجر شیخ نورمحمد کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کی خاندان کو مذہب سے بہت لگاؤ تھا۔علامہ اقبال کی والدہ محترمہ امام بی بی ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک مدبر، نیک صفت اور معاملہ فہم خاتون تھی ۔آپ نے اقبال کی تعلیم تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ علامہ محمد اقبال ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ بیسوی صدی کے سب سے عظیم مسلم مفکر ،شاعر مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی رہنماتھے۔


      رب کائنات نے انھیں بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔انھوں نے مسلمانوں کو ایک آزاد اور خود مختار قوم بننے کی ترغیب دی ، پیغام اقبال نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کو غلامی سے آزاد ہونے کی تدبیر بتاتا ہے۔علامہ اقبال ایسے دور میں پیدا ہوئے جب پوری مسلمان قوم غلامی کی زندگی گزار رہی تھی ، جبکہ انھیں ساری آسائیشں حاصل تھیں۔ یہاں تک کہ وہ 1905میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے اور لنکنزان یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی، جب کہ جرمنی کی میونخ یونیوسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد علامہ اقبال واپس ہندوستان آگئے۔ ان کے پاس اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے تمام مواقعے موجود تھے لیکن انھوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی۔ آج اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کے اوراق آپ کی بصیرت، فراست ، معاملہ فہمی اور دورُ اندایشی نیز قوم سے خیرخواہی کی روشنی سے جگمگا رہے ہیں۔اقبال کو مشرقی اور مغربی علوم پر کمال کی مہارت حاصل تھی اور وہ انگریزوں کے عزائم سے بھی بخوبی اگاہ تھے اسی لیے وہ مغربی تہذب سے سخت بیزار تھے ۔وہ اسلامی فکرونظر کے علمبردار تھے۔وہ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگاکر اسلامی اقدار اور روایت کوانُ کے لیے مشعل راہ بنانا چاہتے تھے ۔اقبال کو اسلام کی تاریخ اور اصولوں پر یقین کامل تھا اسی لیے انہوں نے اپنی فکری شاعری اور نثر کے زریعے مسلمانوں کو حال کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی صفوں کودرست کرکے مستقبل کی جدوجہد کیلئے تیار کرنے کا عزم سے سرشار کیا

      ۔1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں کی جانب سے مسلمانان ہند کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔انگریزوں نے ہندووں کی حمایت اور مسلمانوں کی تباہی پر مبنی پالیسیوں کے زریعے نقصان پہنچانے کا کوئی بھی زریعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا اس دوران مسلمانان ہندکو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے سرسید احمد خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنے انداز میں اسلامی افکار کو توضیع کرتے ہوئے برصغیر جنوبی اشیا میں مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ۔لیکن اقبال نے وجدانہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فکری اور تخلیقی پیغام کے زریعے جس طرح مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک علحیدہ وطن کا مطالبے کا تعین کیا اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔علامہ اقبال نے اسلام کو نظریہ قومیت کی بنیاد بنایا اور مسلمانان ہند کے لیے ایک علیحدہوطن کا خواب دیکھا۔ اس خواب کی تعبیر کو ممکن بنانے میں اقبال وجدان کی اہمیت اپنی جگہ مقدم ہے انھوں نے اپنی شاعری کے زریعے مسلمانان ہند اور خاص طور پر نوجوانوں کو گرمایا اور ان کے جداگانہ سیاسی حقوق کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے ایک مملکت خداداد کی تشکیل ممکن بنا دیا۔ علامہ اقبال نے ایک مفکر کی حیثیت سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا غم اٹھا رکھا تھا ۔علامہ اقبال کو نوجوانو ں کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا ۔ اسی لیے علامہ اقبال نے نوجوانوں کی سوچ تبدیل کرنے پر محنت کی، اقبال کا شاھین ایک ایسی مثالی زندگی کا نام ہے جو خوداری اور قابلیت سے بھرپور ہے

      عقابی روح جب بیدار ہوتی ہیں جوانوں میں
      نظر آتی ہیں انُ کو اپنی منزل آسمانوں میں


      علامہ اقبال کی سوچ صرف تخیالاتی دور اندیشی نہیں بلکہ ایک مسلم فلاحی معاشرے کی بنیاد تھی، علامہ اقبال نے جہاں اپنی شاعری سے نوجوانوں کے جذبات ابھارے وہیں نوجوانوں کو مطلوبہ ہدف حاصل کرنے

      کے لئے ضروری رہنمائی بھی کی ۔
      سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
      لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


      صداقت عدالت اور شجاعت جیسے اوصاف کے ساتھ امیدوار کو اپنے رب کے ساتھ گہرے تعلق کا ہونا بھی لازمی ہے جس سے خدا کی مدد اور نصرت ہر وقت ہر گھڑی اس کے ساتھ ہو ۔

      خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
      خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے


      آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قومی اور ملی وحدت کا فقدان ہے ۔ہم اتحاد ویگانگت ، اخوت و اجتماعیت اور بھائی چارے کے درس کو فراموش کرچکے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم مختلف مسائل سے دوچار ہیں خدا ہم سب کو خلوص نیت کے ساتھ تعلیمات اقبال پر عمل کرتے ہوئے اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد کرنے کی توفیق دے

      فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۔
      موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں







      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    4. #4
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    5. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      اقبال منزل ( شاعر مشرق کی جاۓ پیدائش




      قلعہ سیالکوٹ کے جنوب مشرقی حصے کی جانب وہ دروازہ کے قریب قدیم محلہ چوڑی گراں واقع ہے جس کی ایک گلی میں وہ تاریخی مکان ہے جس کو ہم ''اقبال منزل''کے نام سے جانتے ہیں۔ اس تاریخی مکان کی طرف جانے والی سڑک کو اقبال روڈ کہتے ہیں۔ اس تاریخی مکان اقبال منزل کا کل رقبہ 3250 مربع فٹ ہے یعنی موجودہ حساب سے سات مربوں سے زیادہ ہے۔یہ مکان علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے دادا شیخ محمد رفیق نے 1861 میں صرف 150 روپے میں خریدا تھا۔ اس کی مرمت کروائی، موجودہ اقبال منزل کا مشرقی حصہ جو مغربی حصہ سے تین گنا بڑا ہے علامہ کے والد نے ملحقہ مکان خریدا تو اس کے بعد مکان میں مزید کمروں کے علاوہ ایک برساتی اور ایک برآمدے کا اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے مکان کا رخ اقبال روڈ کی طرف آ گیا۔ موجودہ مکان قدیم طرز کی ایک نادر نمونہ ہے بلکہ پورے مکان کی طرز تعمیر یورپین ٹائپ ہے۔ اس مکان کا ایک حصہ محلہ چوڑی گراں میں جا لگتا ہے لیکن آج کل وہ راستہ آمد ورفت کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اقبال روڈ کی طرف سے اقبال منزل جانے کا راستہ ہے اور اب یہی صدر دروازہ کہلاتا ہے۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان نیکی اور پاک دامنی کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ علامہ کے والد شیخ نور محمد اس مکان کے ایک حصے میں (موجودہ آفس اور لائبریری والا کمرہ) دکان کیا کرتے تھے۔ وہ برقعوں کی ٹوپیاں بنانے کے ماہر تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے والد برقع ٹوپی( ژٹل کاک ٹوپی) بنانے کے موجد بھی تھے۔ ہر شخص ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اقبال کی جائے پیدائش اس وقت ایسے نہیں تھی جیسے اب ہے۔ اقبال منزل کا مغربی حصہ جو( چوڑی گراں) گلی کی طرف کھلتا ہے اصل مکان ہے جس کی نچلی منزل کے آخری جنوبی کمرے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ اقبال کے بچپن میں ہی اقبال منزل اسی صورت موجود تھی۔ اس مکان میں علامہ نے ہوش سنبھالا، بچپن، لڑکپن، جوانی کے ایام بلکہ ان کی پہلی شادی بھی اسی مکان میں ہوئی تھی۔ اس مکان کے صحن اور چوباروں پر کھیلنا، پتنگیں اڑانا، کبوتر پالنا بھی اسی منزل سے وابستہ ہیں۔ اقبال منزل کا نقشہ کچھ یوں ہے پورا مکان تین منزلہ ہے۔ مغربی حصہ جس میں اقبال پیدا ہوئے بھی تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ جواب انتہائی خستہ ہو چکی ہے اور سہاروں کے بل بوتے پر کھڑی ہے۔ خاص طور پر مشرقی حصہ بہت خستہ ہے دیواروں اور کمروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ کسی وقت بھی کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے اور وہ حصہ کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ نچلی منزل میں ڈیوڑھی اور گلی کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے دائیںہاتھ آگے پیچھے دو کمرے ہیں۔ یہ دونوں کمرے گلی کے رخ پر ہیں گلی کے رخ پر مکان کا سابقہ صدر دروازہ ہے جو قدیم طرز کا نادر نمونہ ہے اس کے سامنے چوکور احاطہ تھا اب وہاں بھی آبادی ہو چکی ہے اور جگہ کی تنگی کے باعث بلڈنگ پوری طرح نظر نہیں آتی لیکن اس کے دائیں بائیں گلیاں موجود ہیں۔ پہلی منزل پردوکمرے تھے جنہیں بیچ کی دیوار نکال کر ایک کمرہ بنادیا گیا۔ دوسری منزل ایک کمرے اور دو طرفہ کھلے ہوئے ایک برآمدے پر مشتمل ہے کہتے ہیںکہ علامہ جب کبھی گرمیوں میں سیالکوٹ آتے تو اس کمرے کو استعمال کیا کرتے تھے۔ بازار کی جانب سے مکان کی بالائی منزل کو جانے والا زینہ ہے جومردان خانے کے لئے راستے کی خاطر استعمال ہوتا تھا مہمان خانہ تین چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا اس کے ساتھ ایک غسل خانہ تھا۔ مہمان خا نے کا پہلا کمرہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مردان خانے کے دوسرے کمروں کے دروازے زنان خانہ میں بھی کھلتے تھے۔ یہ دو کمرے ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے استعمال میں رہتے تھے۔ مردان خانے کے ان چاروں کے رخ پر باہر کی طرف سے ایک بڑی گیلری بنی ہوئی ہے بقول خالد نظیر صوفی نواسہ شیخ عطا محمد بیٹھک کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مہمان خانے کی چھت پر فانوس لٹکا کرتا تھا اور اس کمرے میں جو شیخ عطا محمد کے زیر استعمال تھا اس کمرے میں وکٹورین طرز کا ایک خوبصورت آہنی آتش دان تھا ۔ جواب بھی ہی ہے ۔پہلی منزل کا زنان خانہ تین کمروں پر مشتمل تھا جس میں دو کمرے جبکہ تیسرا کمرہ انہی سے ملحق اندر کی طرف سٹور اور باورچی خانے کے لئے استعمال ہوتا تھا(ریکارڈ روم بنا دیا گیا ہے) بالائی منزل کی شمالی دیوار کے ساتھ محراب بنی ہوئی جس میں خوراک محفوظ رکھنے والی جالی نصب تھی جبکہ اس دیوار کے ساتھ شمال مشرقی کونے میں ایک انگیٹھی تھی جس کا دھواں دان بند کر دیا گیا۔سڑک کے رخ پر مہمان خانے کے اوپر جو کمرہ اور بر آمدہ ہے اسی کمرے کی چھت پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کبوتروں کے لئے جگہ بنا رکھی تھی اور دوسری منزل پر سٹور کو بھی کبوتروں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ کبوتروں کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا نظریہ یہ تھا کہ کبوتروں کے پروں سے جو ہوا گزر کر آتی ہے وہ صحت کے لئے بہت اچھی ہوتی ہے۔ شمال مشرقی کونے میں واقع الگ تھلگ برساتی کو علامہ اپنے بچپن میں پتنگ اڑانے کے لئے موزوں خیال کرتے تھے۔ سڑک کے رخ پر دوسری منزل کی خفاظتی جالیوں کو ٹوٹنے کے بعد آہنی جنگلے سے ری پلیس کیا گیا جبکہ اوپر والی منزل کی جالیاں محفوظ ہیں۔ اقبال منزل کو قومی تحویل میں لینے کے بعد اقبال روڈ کی طرف سے یعنی مشرقی حصے کی جانب پہلی منزل کے نیچے جودکانیں تھیں انہیں ایک بڑے ہال نما کمرے کی شکل میں دارالمطالعہ بنا دیا گیا۔جبکہ اس کے ساتھ والے کمرے میں ایک لائبریری اور آفس بھی بنایا گیا۔ جہاں تمام قومی اخبارات اور رسائل پڑھنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے آج سے 20 بائیس سال قبل جب اس مکان کا چارج لیا تو اس کی حالت بہت خراب تھی لیکن انہوں نے جس خلوص ، دیانتداری اور محبت کے ساتھ اس کو خوب سے خوب تر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب چندہ ماہ قبل علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے منیب اقبال یہاں تشریف لائے تو انہوں نے اقبال منزل دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات میں لکھا کہ'' گھر آنا ہمیشہ بہت اچھا اور پر سکون لگتا ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ اس کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے''۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ کہ سید ریاض حسین نقوی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد نہ ہونے کی وجہ سے مکان کی خستہ حالت وہیں کی وہیں ہے۔ چند سال قبل صوبائی وزیر صنعت محمد اجمل نے اقبال منزل میں کھڑے ہو کر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہاں ایک جدید ریسرچ سنٹربنائیں گے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں اور یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ ڈی سی سیالکوٹ اس بلڈنگ کی رینوویشن کے لئے خصوصی اور فوری اقدامات کر رہے ہیں لیکن آج تک کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روح کیا سوچتی ہوگی کہ میرے شہر کے لوگ میرے مکان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے جبکہ بڑے بڑے پلازے، بلڈنگ اور فیکڑیاں تو بن رہی ہیں لیکن اقبال منزل کی حالت نہیں بدل سکی۔ اقبال منزل کی خستہ حالی کی اور بھی جو وجوہات ہیں یہاں اوپن ڈرینج (چاروں طرف) صبح و شام ٹریفک کی وجہ سے اٹھتا ہوا دھواں بلڈنگ میں لکڑی کے کام یعنی بلڈنگ کے حسن کو زبردست متاثرکر رہا ہے۔اقبال منزل بلاشبہ ہمارا ایک تاریخی اور قومی ورثہ ہے جہاں پر نہ صرف علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے بلکہ ان کے زیر استعمال اشیاء بھی تاریخی ورثہ ہیں۔ ان میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مطالعہ کی کرسی ، پلنگ، پنگھوڑا، آتش دان ، مسہری، صندوق، حقہ، برتن، گھڑیاں الغرض لاتعداد اشیاء موجود ہیں جبکہ تمام کمروں اور باہر کی تمام دیواروں کے ساتھ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی فریم شدہ تاریخی تصاویر بھی نمایاں ہیں جا کہ دیکھنے والاں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور اب تک ہزاروں لوگ اس کی زیارت کر چکے ہیں۔علامہ کے آبائی مکان کے قریب گلی حسام الدین میں علامہ کے استاد میر حسن کا مکان ہے جہاں علامہ نے تعلیم حاصل کی۔ اقبال منزل سے ملحق یعنی ہمسائے میں پروفیسر خواجہ راشد جاوید کا مکان ہے جو بڑے صاحب علم و دانش ہیں ۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد1840ء سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں میں شیخ محمد رفیق کے گھر کی رونق بنے۔



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    6. #6
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      مسلم مملکت کا فکری رہبراورنظریہ داں



      مسلم مملکت کا فکری رہبراورنظریہ داں


      فکرِ اقبال کے حوالے سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا شمار اسلامی دنیا کی اہم قد آور شخصیتوں میں ہوتا ہے ۔ اُنیسویں صدی میں دنیائے اسلام میں آنے والے سیاسی زوال کی کیفیت اور معاشرتی زبوں حالی، جس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی سامراج نے اسلامی دنیا اور خصوصاً بّرصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے باہمی نفاق کا قرار واقعی فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیائے اسلام میں اپنی حکمرانی کے گہرے پنجے گاڑھ دیئے تھے ۔ اسلامی دنیا کے مقبوضات پر مغربی دنیا کے قبضے کو مستحکم بنانے اورسامراجی نصب العین کی تکمیل کرتے ہوئے برطانوی کمپنی بہادر کی حکومت نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کو منطقی انجام تک پہنچانے کےلئے ماضی میں افغانستان اور شمال مغرب سے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی حمایت میں آنے والے اسلامی اثرات کو روکنے کےلئے ڈیورنڈ لائین پر برطانوی سیکیورٹی چوکیوں کا نظام قائم کیا جس کی باز گشت آج کی آزاد دنیا میں دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ کے حوالے سے پاکستان افغانستان بارڈر پر بھی سنائی دے رہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ اقبال کی پیغامی شاعری اور فکری صلاحیتیں اوائلِ عمر میں ہی اُبھر کر سامنے آنے لگی تھیں لیکن اقبال میں چھپے ہوئے فلسفیانہ خیالات کو ایک انگریز پروفیسر سر تھامس آرنلڈ نے اُس وقت پہچانا جب اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں آئے۔ پروفیسر آرنلڈ نے نوجوان اقبال میں موجود اِن فکری تخلیقات کو مہمیز دیتے ہوئے اُنہیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی اعلیٰ ڈگری کی تعلیم کےلئے باہر جانے کا مشورہ دیا ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بلآخر ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری بخوبی حاصل کی لیکن یورپی معاشرتی ماحول میں بیرونی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود فکر اقبال پر پیغمبر اسلام کی زندگی اور قرانی تعلیمات کا اثر غالب رہا ۔حکیم الااُمت ڈاکٹر علامہ اقبال نے اُمتِ اسلامیہ کو زوال کی اِس کیفیت سے نکالنے کے لئے 1911-1913 میں اپنی شہرہ آفاق نظموں ”شکوہ “اور ”جواب شکوہ“ کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی کھوئی ہوئی عظمت کا احساس دلانے کےلئے اُمتِ اسلامیہ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور مسلمانانِ ہند کے دلوں کو عظمتِ رفتہ کے عظیم مناظر دکھا کر گرمایا ۔ اُنہوں نے ”شکوہ “میں خدائے ذوالجلال سے گفتگو کے حوالے سے مسلمانوں کی محرومیوں ، مایوسیوں اور شکست و ریخت کی کیفیت کو موضوع بحث بنایا جبکہ ”جوابِ شکوہ“ میں رب العالمین کے حوالے سے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے غفلت ، فرقہ پسندی ، باہمی انتشار اور عملی زندگی میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کےلئے بیداری ، فکر و نظر اور انسانی جدوجہد کے جذبے کو تیز تر کرنے کا احساس دلایا ۔ علامہ اقبال کے اِس پیغامی کلام نے مسلمانانِ ہند کو خواب غفلت سے جگانے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کا اعتراف ہندوﺅں کے مجموئی مفاد کی سربلندی کےلئے متحدہ ہندوستان کی آزادی کےلئے کام کرنے والے ممتاز ہندو رہنما جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ” تلاشِ ہند“ میں اِن الفاظ میں کیا ہے ” مسلمان نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سر محمد اقبال کا اہم حصہ ہے ۔ ابتدا میں اقبال نے اُردو میں پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ جنگِ بلقان کے دوران اُنہوں نے اسلامی موضوع اختیار کئے جس نے مسلمانوں کے جذبات کو متاثر کیا اور اُنہیں شدید تر کر دیا ۔ وہ ایک شاعر ، عالم اور فلسفی تھے اور نسل کے اعتبار سے کشمیری برہمن تھے ۔

      اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کےلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُنکی ہردلعزیزی اُن کے کمالِ شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اِس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے “ ۔ جواہر لال نہرو کی رائے اپنی جگہ اہم ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے طول و ارض میں بسنے والے مسلمانوں کی فکرِ ی جہت کو بیدار کرنے اور اُنہیں ایک لڑی میں پرونے والے علامہ اقبال ہی تھے جس کا اظہار اُن کے کلام میں بھی جا بجا ملتا ہے ۔
      قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
      کچھ بھی پیغامِ محمد(ص) کا تمہیں پاس نہیں
      فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
      کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
      چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
      پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم !
      کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
      ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
      آج بھی ہو جو براھیم(ع) کا ایماں پیدا
      آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
      قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
      دہر میں اسمِ محمد(ص) سے اُجالا کر دے
      کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
      یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
      وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
      نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
      بلاشبہ علامہ اقبال کے اشعار نے ہندوستان کے مسلمانوں کو اسلامی نظریہ کی اساس میں ڈھالنے میں ایک ناقابل شکست کردار ادا کیا ۔ تحریک پاکستان میں اُن کے اِس فکری کردار کو اِس اَمر سے اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ ویسے تو مسلمانوں نے مغلیہ سلطنت کی شکل میں انتظامی طور پر تمام ہندوستان پر حکومت کی لیکن آبادی کے حوالے سے ہندوستان میں مقامی ہندو آبادی کو متشددو دیگر پُر اثر ذرائع سے دبانے اور مسلمانوں کو ہندوستان کی اکثریتی آبادی میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کبھی نہیں کی ۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں شہروں اور دیہاتوں میں برابری کی بنیاد پر ہندو اور مسلمان آبادیاں معاشرتی توازن کےساتھ co-exist کرتی رہیں لیکن مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمان آبادیوں کے مسائل میں اُس وقت اضافہ ہوا جب کمپنی بہادر اور برطانوی حکومتِ ہند نے جو بتدریج مسلمان حکمرانوں اور مغلیہ سلطنت کی جگہ اقتدار میں آئی تھی ، نے مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ کرنے اور ہندوﺅں کےساتھ اقتدار میں شراکت کو اپنا نصب العین بنایا ۔ پروفیسر محمد منور اپنی کتاب تحریکِ پاکستان کے تاریخی خدوخال میں لکھتے ہیں ۔ ” بّر صغیرکے مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ اور انگریزوں نے کس طرح باہم گٹھ جوڑ کر لیا یہ ایک طویل اور دردناک کہانی ہے ۔ اِن دونوں قوموں نے مسلمانوں کے حقوق پامال کئے اور اُنہیں یکسر برباد کرنے کےلئے سارا زور لگا ڈالا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ ایسی گھناﺅنی کوششوں سے پُر ہے ۔ بنگال میں جہاں انگریزی حکومت سب سے پہلے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ، وہاں جملہ انتظامی مشینری ہندوﺅں کے حوالے کر دی گئی ۔ مسلمان چپڑاسی سے بڑھ کر کسی عہدے کی اُمید نہیں رکھ سکتے تھے ۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی تائید تاریخی دستاویزات کرتی ہیں“۔
      حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو اکثریتی صوبوں میں انگریزحمایت کے پس منظر میں اکثریت کی جانب سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ، شدھی اور سنگھٹن کی ہندو شدت پسند تحریکوں کی آڑ میں مسلمانوں کو زبردستی یامالی منفعت کی ترغیبوں سے ہندو بنانے اور فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُنکی پراپرٹی کو تہ و بالا کرنے کی روش کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کےلئے ، یعنی علامہ اقبال اور قائداعظم کی تحریکِ پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے مسلم مذہبی جماعتوں نے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متحدہ ہندوستان کے نام پر کانگریس کا ساتھ دیا لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبردست اکثریت نے اِن مذہبی جماعتوں کا ساتھ دینے کے بجائے علامہ اقبال اور قائداعظم کی فکر و نظر کاساتھ دیتے ہوئے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑکر رکھ دیا ۔ فی الحقیقت مسلمان کبھی بھی ہندوستان کی کل آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں رہے اور برطانوی حکومت ہند کے جمہوری ایجنڈے کے حوالے سے مسلمانوں کےلئے علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریہ پاکستان کی بنیاد پر حصول پاکستان ایک مشکل ترین جد وجہد تھی۔ برطانوی حکومت ہند سے علیحدگی کو بغاوت سے تعبیر کرنے اور سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود علامہ اقبال نے دسمبر 1930 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہءصدارت پیش کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کےلئے ایک علیحدہ وطن کے مطالبے کی بنیاد رکھ دی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حوالے سے علامہ اقبال کا ویژن اُن کے اِس بنیادی موقف کے گرد ہی گھومتا تھا کہ اسلامی زندگی، ثقافتی قوت کے طور پر ایک مخصوص ریاست جو اُن کے اپنے قبضہءقدرت میں ہو، میں ہی جِلا پا سکتی ہے ۔ اُنہوں نے اپنے خطبہ صدارت میں واضح طور پر اِس نظریہ کا تعین اِن الفاظ میں کیا " میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں جسے برطانوی شہنشاہی حدود کے اندر یا باہر حکومتِ خود اختیاری میسر ہو ۔ شمال مغربی ہندوستان میں ایک مربوط مسلم ریاست کی تشکیل میرے نزدیک کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر دکھائی دیتی ہے“۔ 1938 میں علامہ اقبال کی وفات کے بعد بالآخر قائداعظم بھی طویل سوچ و بچار کے بعد اِسی نتیجے پر پہنچے اور اُنہیں یہ مشکل فیصلہ 1940 میں کرنا پڑا ۔1943 میں قائداعظم کے نام لکھے جانے والے علامہ اقبال کے خطوط کا دیباچہ میں قائداعظم نے اِس اَمر کا اعتراف کیا ہے کہ علامہ اقبال 1938 میں اپنی وفات سے قبل اُن سے ایک آزاد مسلم ریاست کے مطالبے کے اصول کو منوا چکے تھے ۔ وہ اِس دیباچہ میں لکھتے ہیں " اقبال کی رائے بنیادی طور پر میری رائے کے مطابق ہی تھی اور آخر کار یہ رائے مجھے اُن نتائج تک پہنچا کر رہیں جو مجھے ہندوستان کے دستوری مسائل پر گہرے غور و فکر کے بعد حاصل ہوئیں اور یہی فکری نتائج مسلمانانِ ہند کے متحدہ عزم کی شکل میں ظاہر ہوئے اور قراردادِ لاہور میں شامل ہوئے " ۔ حقیقت یہی ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کےلئے ہندو اکثریتی صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کا تحفظ ہر مرحلے پر پیشِ نظر رہا۔ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک مضبوط مسلم ریاست کا وجود ، ہندوستانی مسلمانوں کےلئے ہمیشہ ہی اعتماد اور تحفظ کا باعث رہے گا ۔مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایک مخصوص سیاسی محفل میں یہ کہتے ہوئے اِس اَمر کی تائید کی کہ اُنہوں نے پوری قوت سے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن پاکستان اب ایک حقیقت بن گیا ہے اور اب بھارتی مسلمانوں کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ پاکستان قائم و دائم رہے ۔ بہرحال قائداعظم ہندو اکثریتی صوبوں میں تحریکِ پاکستان کےلئے مسلمانوں کی زبردست حمایت کے باعث اُنکے تحفظ کےلئے ہمیشہ فکرمند رہے اور یہی وجہ ہے کہ جب 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور کے ذریعے برطانوی حکومت ہند سے ایک علیحدہ مسلم ریاست کو مطالبہ کیا گیا تو اِسی قرارداد میں اِس اَمر کا مطالبہ بھی خاص طور پر کیا گیا کہ " That adequate, effective and mandatory safeguards should be specifically provided in the constitution for minorities in these units and in the region for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights and interest in consultation with them and in other parts of India where the Musalmans are in minority adequate, effective and mandatory safeguards shall be specifically provided for them for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights and interest in consultation with them."

      ۔ اِسی طرح جب 9 مارچ 1946 کو دہلی میں مسلم لیگ کے ممبرانِ پارلیمنٹ کے کنونشن میں قراردادِ لاہور کے متن میں تبدیلی کرتے ہوئے خود مختار ریاستوں کے بجائے ایک مسلم مملکت کی بات کی گئی تویہ بھی کہا گیا کہ " That the minorities in Pakistan and Hindustan be provided with safeguards on the lines of the All India Muslim League resolution passed on 23rd of March 1940, at Lahore."

      ۔یہاں یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ11 اگست 1947 کی قائداعظم کی تقریر سے سیکولرازم کے حوالے سے غلط مفہوم نکالنے کی کوششوں سے پرہیز کیا جانا چاہئیے کیونکہ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے حوالے سے یہ ایک اصولی فیصلہ تھا جس کی وضاحت قرادادِ لاہور اور قراردادِ دہلی میں کر دی گئی تھی، اِسی حوالے سے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات روکنے کےلئے وزیراعظم لیاقت علی خان اپریل 1950 میں نئی دہلی گئے جہاں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے لیاقت نہرو معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ بہرحال 14 اگست 1947 کو جب پاکستان وجود میں آیا تو علامہ اقبال اِس دنیا میں نہیں تھے لیکن حصولِ پاکستان کےلئے اُن کی آئینہ ضمیری اب تاریخ کا حصہ ہے۔ تحریر : رانا عبدالباقی





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    7. #7
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال

      شوق میری لے میں ہے، شوق میری نے میں ہے
      نغمہء اللہ ھو میرے رَگ و پے میں ہے

      دل ہے مسلماں میرا نہ تیرا
      تو بھی نمازی میں بھی نمازی

      تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
      ایسی نماز سے گریز، ایسے امام سے گزر

      قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
      اسکو کیا جانے بیچارے یہ دو رکعت کے امام






      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    8. #8
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: علامہ محمد اقبال




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    9. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      CaLmInG MeLoDy (11-19-2015)

    10. #9
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_html
      Ainee's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      1,155
      Threads
      263
      Thanks
      32
      Thanked 102 Times in 69 Posts
      Mentioned
      525 Post(s)
      Tagged
      4726 Thread(s)
      Rep Power
      27

      Re: علامہ محمد اقبال

      well done. umda post. thankyou both of you


    11. The Following User Says Thank You to Ainee For This Useful Post:

      CaLmInG MeLoDy (11-19-2015)

    12. #10
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 586 Times in 427 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      199

      Re: علامہ محمد اقبال









      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    Closed Thread
    + Post New Thread
    Page 1 of 2 12 LastLast

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    جون ایلیا،میر تقی،علامہ اقبال،فیض احمد،سید نصیر،مرزا غالب،محسن نقوی، ‏etc

    علامہ اقبال کے مشہور اشعار تصویر

    جون ایلیا،میر تقی،علامہ اقبال،فیض احمد،سید نصیر،مرزا غالب،محسن نقوی، ‏e

    نہ کر تقدیر ۔۔اقبال شعر

    ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﮎ ﺭﻧﺪِ ﺯﯾﺮﮎ ﻧﮯ

    علامہ اقبال

    کلام اقبال اردو

    دائم اقبال دائم شاعری

    مومن خا مومن یا جگر مراد آباری کی غزل گوی مضمون لیکهی

    علامہ اقبال یونیوسٹی کی داخلا کی آخری تارخیح

    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •