تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے حسن بتاں تک دیکھوں ۔۔
تو نے یوں دیکھا ہے جیسے دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں ۔۔
... صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن، حسن بیاں تک دیکھوں ۔۔
وقت نے ذہن میں دھندلا دئے تیرے خد و خال
یوں تو میں ٹوٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں ۔۔
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لےجاتا
میں فقط اک تصویر کہاں تک دیکھوں ۔۔
اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انسان سے نپٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
Similar Threads:
Bookmarks