دیا پیام ہوا نے دیئے بجھاتے ہوئے
غموں کو بھول نہ جانا، خوشی مناتے ہوئے
بڑھا رہا تھا، دلوں میں حرارتِ ایماں
کنارِ آب کوئی کشتیاں جلاتے ہوئے
وفورِ شوق نے حالت عجیب کر دی تھی
میں خود کو بھول گیا تھا پتنگ اڑاتے ہوئے
وہ ہاتھ کون سے ہوں گے، جو اِن پہ لکھیں گے
یہ ہاتھ سوچتے ہیں، تختیاں بناتے ہوئے
سوال میں نے کیا، زندگی کے بارے میں
ہَوا گزر گئی پتوں میں سرسراتے ہوئے
پہنچ نہ جائے کہیں آگ اونچے محلوں تک
ذرا خیال رہے، جھونپڑی جلاتے ہوئے
Similar Threads:
Bookmarks