نہ خدا ملا نہ وصال صنم

محمد اکرم سومرو
آج کےتاریخِ اسلام اور یونیورسٹی کے طالب علم کے لیےیہ حقیقت شاید حیرت سے کم نا ہو کہ ہزارہ دوم کے مجدد و برصغیر میں مذہب کی تجدید کے سرخُیل اول مولانا مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینیر ہم جماعت تھے۔برصغیر میں اسلام کی سیاسی تاریخ جس کو ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد نا صرف انگریز حکمرانوں نے مسخ کیا بلکہ اس کے اجرا اور پھیلاؤ کے لیے سسٹم بنا کے اس امر کی بھرپور کوشش کی کہ یہاں کا نوجوان اپنے سنہرے اور شاندار ماضی سے کٹ جائے۔ تاریخ سے کٹنے اور لا تعلق رہنے کا یہ سلسلہ ہے کہ ۱۹۴۷ کی آزادی کے بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لیتا۔برصغیر پاک و ہند جو کہ سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا دراصل اسی تعلیمی نظام کی پیداوار تھا جس نے یہاں کے انسانوں کو نا صرف امن دیا بلکہ ان کو سماجی، سیاسی، معاشی و مذہبی حوالے سے ایک بہترین معاشرے میں تبدیل کر دیا۔
تعلیم کے ماہرین اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں رکھتے کہ کامیاب طالب علم دراصل عکاس ہوتا ہے اُس بہترین تعلیمی و تربیتی نظام کا جس کا حصہ رہنے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ممتاز حیثیت ومقام حاصل کرتا ہے۔اور اس حقیقت سے بھی ہر زی شعور واقف ہے کہ تعلیمی نظام ہمیشہ سے حکمرانوں کی سوچ اور نظریہ کا ترجمان ہوا کرتاہے۔اور ہر دور کے حکمران نا صرف تعلیمی نطام کے زریعے معاشرے کو ایک خاص نظریہ سے روشناس کراتے ہیں بلکہ اگلے دور کی معاشی، سیاسی اور سماجی ضروریات کو بھی اسی تعلیمی نظام کےزریعے پورا کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند اپنی ثقافتی نیرنگی کی وجہ سے تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتاہے۔ مسلمان حکمرانوں نے جب یہاں نظام حکومت سنبھالا تو دنیا جانتی ہے کہ یہ خطہ کسی مرکزی حکومت کے طابع نہ تھا۔ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہندکو سیاسی مرکزیت سے روشناس کرایا اور ایک مضبوط سیاسی نظام کے سا تھ ساتھ یہاں کے باشندوں کے لیے مساوات کی بنیاد پر سماجی و معاشی نظام کی داغ بیل ڈالی۔ مسلمان حکمرانوں نے شروع سے ہی تعلیم کو معاشرے میں سدھار لانے کا زریعہ بنایا۔ تعلیم و تربیت کا یہ نظام حکومت کی سرپرستی میں تو کام کرتا ہی تھا اس کے ساتھ ساتھ اولیا اللہ کی محنت و تربیت کا نظام بھی غیر رسمی تعلیم کا ایک بہت اہم اور مستقل زریعہ تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی یہ علم دوستی ہی تھی کہ مقریزی کتاب الخلط میں لکھتا ہے کہ "بزمانہ محمد تغلق صرف دہلی میں ایک ہزار مدارس تھے۔ میکس مولر بھی اسی طرح کی حقیقت کا اعتراف کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ انگریزی عمل داری سے قبل بنگال میں ۸۰ ہزار مدارس تھے یعنی ہر چار سو لوگوں کے آبادی کے لیے ایک مدرسہ ہوتا تھا۔ یہ مسلمانوں کی علم دوستی ہی تھی کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں جب تعلیمی حالت کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے تو الگزنڈر ہملٹن لکھتا ہے کہ صرف شہر ٹھٹھ (سندھ) میں چار سو کالج (مدارس) قائم تھے جو مختلف علوم سکھاتے تھے۔
اس نظام تعلیم کا بنیادی مقصد یہاں کے باسیوں کو بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ اور ریاست اس نظریے و تعلیمی نظام کی سرپرستی دل کھول کر کرتی تھی۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہاں انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ سے پہلے تک کے حکمران طبقےخاص طور پر تعلیمی اداروں کے لیے زمین وقف کرنا اور ایسے اداروں کی مالی مدد کرنااپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کے اسی جذبہ کے بارے میں حیاتِ حافظ رحمت میں لکھا ہے کہ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے کے بعد بھی صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع جو دہلی سے قریب تر تھے ان میں پانچ ہزار علما درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور حافظ الملک کی ریاست سے تنخواہیں حاصل کرتے تھے۔
ان مدارس کی دوسری بڑی خصوصیت جن کو آج کے وور میں سکول یا کالج کہا جا سکتاہے یہ تھی کہ ان میں دینی ودنیاوی تعلیم یکجا تھی۔ یعنی ایک ہی چھت تلے مذہبی و دنیاوی علوم و فنون کی تدریس کا انتظام کیا جاتا تھا۔ شروع میں جن دو ہونہار ہم جماعتوں کی مثال دی گئی ہے وہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ وہ سنہری دور مختلف المزاج اور صلاحتیں رکھنے والے طلبا کی تعلیم و تربیت کا بھرپور انتظام کرتا تھا۔ اسی لیے ایک ہم جماعت نے مذہب کے میدان میں قدم رکھا تو مجددِ وقت ٹھہرا اور دوسرے ہم جماعت نے اگر سول انجنیرنگ کے میدان میں قدم رکھا تو تاج محل جیسا شہکار و عجوبہ تخلیق کر ڈالا۔جس کو دیکھ کردنیا آج بھی ماضی میں تخلیق و فن کی بلندیوں کا اندازہ لگانے کی کو شش کرتی ہے اور انگشت بادندان ہے کہ کیسے ماہر فنِ تعمیر تھے وہ لوگ جنہوں نے اس منصوبے کو سوچا اور پایا تکمیل کو پہنچایا۔
برصغیر کا یہ تعلیمی نظام اپنے اندر ایسے ثقافتی و سماجی اقدار کو سموے ہوے تھاجس نے بھائی چارے، قومی احساس، انسان دوستی، سچ اور دیانت داری کا معاشرہ پیدا کرنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اور اس قومی معاشرے کے قیام کااصل سہرا اس وقت کے مدارس، اساتذہ اور حکومت کے سر ہے۔دورِ غلامی کی سب سے بڑی سازش دراصل اسی تعلیمی نظام کو توڑنا اور مغربی ثقافت کی ترویج و ترقی کے لیے ایک نیا جداگانہ نظام تعلیم بنانا تھا۔ جیسا کہ لارڈ میکالے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ "اگر ہم اس قوم پر حکو مت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس کے تعلیمی نظام کو بدلنااور یہاں کی ثقافت و روایات کو تبدیل کرنا ہو گا"۔
1857کے بعد انگریز نے اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوے یہاں دینی تعلیم کے ادارے و مدارس کا انتخاب کرنے کے بعد ان کو فرقہ واریت اور قوم کو تقسیم و منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ووسرا ظلم یہ ہوا کہ ان مذہبی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبا کے لیے کسی قسم کی کوئی ملازمت موجود نہ تھی۔ انگریز کی یہ بڑی گہر ی سازش تھی کہ اس نے اس طرح سے مذہبی طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو معاشرے پر اپنے گزر بسر کے لیے انحصار کرنے پر مجبور کر دیا۔نتیجتاً عملی طور پر معاشی زندگی میں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ سے یہ مدارس صرف کچھ مذہبی معلومات و رسومات کی تعلیم دینے تک محدود ہو گے اور اس طرح انگریز کا منصوبہ کامیاب ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کی کچھ رسومات و معلومات تو اگلی نسل کو منتقل ہو گئیں لیکن مدارس سے فارغ التحصیل طلبا عملی سماجی زندگی سے کٹ گے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان طلبا نے معاشی و سیاسی زندگی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اسی کا برا اثر یہ ہوا کہ ان کی اکثریت کے ہاں انسانیت عامہ اور اس کے سیاسی مفاد کی سوچ نا پید ہوتی گئی۔ یہاں یہ حقیقت قابل ذکر اور قابل تعریف ہے کہ اس سارے انگریزی سیلاب میں صر ف شاہ ولی اللہ کے فلسفے پر عمل کرنے والے حضرات و خانقاہیں ہی بچ سکیں باقی یا تو صرف چند مذہبی تصورات کو ہی سب کچھ سمجھتے رہے یا پھر دانستہ و نا دانستہ طور پر انگریز کے سیاسی و معاشی مقاصد کے لیے استعمال ہو گئے۔
انگریزی نظام تعلیم نے دوسری طرف کالجز کے نظام کے زریعے یہاں کی زبان، ثقافت، تاریخ، کلچر و روایات کو نا صرف بدلا بلکہ یہاں کے نوجوان کے دل سے اس دھرتی کی محبت تک کو سلیبس کی تیز و چمکدار چھری سے کھرچ ڈالا۔ اس تعلیمی نظام کی برکت ہے کہ آج یہاں کا طالب علم خود تو وطن کی زبان، ثقافت و روایات سے نفرت کرتا ہی ہے لیکن اگر اس کے سامنے کوئی دوسرا بھی اگر ان روایات کی پاسداری کرنے لگے تو یہ اس کی و پینڈو اور بیک ورڈ کے القاب سے تواضع کرتا ہے۔
اسی انگریزی نظام کےاثرات پر مبنی ایک واقعہ جو میرے ایک شعبہ تدریس کے دوست کے ساتھ پیش آیا ہےآپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔آپ سے بھی گذارش ہے کہ اس واقعے کی طرز پرآپ بھی کوئی ذاتی تجربہ کریں اور ساتھ ہی میری یہ دعا بھی ہے کہ آپ کایہ تجربہ میرے اس مخلص دوست سے مختلف ہو۔ میرے یہ معزز دوست لاہور کے مختلف اداروں سے وابستہ ہیں انہوں نے جو کچھ بتایا وہ حیران کن تو تھا ہی لیکن اس سے زیادہ یہ تکلیف دہ تھا۔موصوف کہتے ہیں کہ، پچھلے دنوں انہوں نے اپنی کلاسز میں طلبا سے پوچھا کہ" اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین کی تعداد و ترتیب کیا ہے؟۔جب اس سوال کے جواب میں چند طلبا نے ہاتھ اٹھایا تو وہ یہ جان کر ششدر رہ گے کہ عموماً پچاس کی کلاس میں مشکل سے پانچ طلبا خلفائے راشدین کے ناموں سے واقف تھے اور ان کی ترتیب بتانے کے معاملے میں تو یہ تناسب اور بھی کم تھا۔ دوسرا سوال میرے دوست نے یہ فرض کرتے ہوے پوچھا کہ شاید یہ طلبا دنیاوی تعلیم اور معلومات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں لیکن کیا کیجئے کہ صیح جواب دینے والوں کا تناسب اب بھی لگ بھگ دس فی صد ہی تھا۔ اور اس دفعہ جو سوال اٹھایا گیا وہ تھا کہ" پنجاب کے گورنر کا نام کیا ہے؟ کہاں یہ کہ سادہ لیکن جامع تعلیمی نظام نے برصغیر جیسے خطے کو سونے کی چڑیا بنا دیا اور کہاں یہ لارڈ میکالے کا نظام کہ جس نے اس قوم کو اپنوں سے اور گردو پیش سے ہی کاٹ دیا۔
یہ اسی انگریز ی نظام تعلیم کا نتیجہ ہے آج نہ مذہب باقی رہا ، نہ قومی سوچ نہ انسانیت عامہ کے مفاد کی سوچ اور نہ ہی دنیاوی ، سیاسی، معاشی اور سماجی معاملات میں دلچسپی۔ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد نوکری ٹھہرا اور وہ بھی نایاب ٹھہری۔ اور رہی خداشناسی و خود شناسی اور علم دوستی تو وہ اس نظام تعلیم کا سرے سے مقصد ہے ہی نہیں۔ آ ج پاکستان کا ہر نوجوان اپنی ڈگری مکمل ہونے کو بعد اسی دیارِ مغرب کو کوچ کرنا چاہتاہے کہ جس کے تعلیمی و نظریاتی نظام کے تحت وہ تعلیم حاصل کرتاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز تو چلا گیا پھر ہمارا تعلیمی نظام وقت کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوے ضروری تبدیلیوں کے ساتھ کیوں بحال نہیں ہوا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انگریز آج بھی اس تعلیمی نطام کے زریعے ہم پر حکومت کر رہا ہے؟ اور نتیجتاً ہم اپنی قوم سے زیادہ اغیار کے خیر خواہ و وفادار ہیں۔
Similar Threads:
Bookmarks