عارف جمیل
عالمی ادارہ ِصحت کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی دُنیا کی 35فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔جبکہ دُنیا میں کُل قتل ہونے والی38فیصد خواتین کے قاتل اُن کے شوہر ہیں۔اسکے علاوہ 3 میں سے1 خاتون اپنی زندگی میں تشدد کی شکار ضرور ہوتی ہے۔ دُنیا بھر میں ایسا ہو رہا ہے لیکن افسوس ناک فرق یہ ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ رحجان زیادہ ہے۔وجہ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہونا ہے۔بلکہ ان ممالک میں "تعلیم یافتہ" پر بھی تشدد کا عمل کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ جب ایک گھر میںبیٹی پیدا ہو تی ہے تو وہ ایک ایسی" کلی "ہوتی ہے جسکی خوشبو سے سارا گھر مہک جاتا ہے۔جیسے جیسے وہ بڑی ہو تی جاتی ہے اپنے شرم و حیاء کے پردے میں دُنیا کے حُسن میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔قدرت حُسن و جمال کو پسند کرتی ہے لہذا اب یہ سب پر لازم ہوتا چلا جاتا ہے کہ اُس کے آس پاس اور دُور کے سب افراد اُس کی عزت و احترام میں کسی قسم کی کمی نہ رکھیں۔نوعمری میں ہی اُ س کو اس بات کا احساس دلوا دیا جاتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں اُسکو ایک دوسرے گھر بیاہ کر جانا ہے۔لہذا مستقبل کی عملی زندگی کو گزارنے کیلئے اُسکو سلیقہ مند لڑکی بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ لیکن ہے تو وہ صنف ِنازک اور خوابوں میں رہنے والی اپنے ماں باپ کی چھوٹی سی "شہزادی" ۔جوآج شادی والے دن سوچ رہی ہے کہ اب وہ شہزادی سے اپنے خاوند کے گھر" ملکہ" بننے جا رہی ہے۔ اُسکا خاوند ایک بادشاہ کی مانند ہو گا جو اُس کا خیال دل و جان سے رکھے گا۔لیکن شاید خوشی کے ساتھ معاشرتی خوف بھی دماغ کے کسی کونے میں چُھپا ہوا ہے لہذا گھر چھوڑتے ہوئے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ساتھ ماں باپ کی آنکھیں بھی یہ سوچ کر تر ہو جاتی ہیں کہ اپنے جگر کا ٹکڑا کس کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔سب دُعا گو ہیں آگے بھی اس کیلئے سب اچھا ہو۔ یہ کیا ہوا! چند دن میں ہی اپنے خاوند اور اُس کے گھر والوں کی اوقات نظر آگئی ہے۔کئی جھوٹ کُھلنے شروع ہو گئے ہیں۔سب سے پہلے تو خاوند کی تعلیم وہ نہیں تھی جو رشتہ کرتے وقت بتائی گئی تھی۔اوہ!یہ کیا ہو گیا !ذہنی طور پر بھی عجیب و غریب رویئے کا مالک ہے۔ساس نے ماں بن کر اپنے بیٹے کے نخرے برداشت کر لیئے ہوئے تھے لیکن اُسکی عادات میں بے راہ روی کی جھلک زیادہ ہے۔اب وہ لڑکی کیا کرے ؟ سوال کرے گی تو جھگڑا۔نہیں اُسکی تو تربیت ایسی ہے ہی نہیں ۔گھروں میں جھگڑوں کی وہ بھی عادی تھی ۔جھگڑے کس گھر میں نہیں ہوتے۔لیکن کیا خاوند ایسے ہوتے ہیں ؟ سُنا تو تھا کہ آجکل شادی کے بعد خاوند اپنا کاروبار یا ملازمت چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ جائو اپنے ماں باپ سے خرچہ لیکر آئو ۔کچھ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ۔جبکہ رشتہ کرنے کے دوران لڑکے کے بارے میں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔لیکن کیا وہ بھی اُن میں ہی شامل ہو گئی ہے ۔وہ تو ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے ۔جس کو یہ سوال پوچھنے کا حق ہے۔پھر ہمت کر کے پوچھ ہی لیاتوایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز آئی اور ملکہ بننے سے پہلے ہی شہزاد ی کے سب خواب ٹوٹ گئے۔اب کیا ہو گا ؟ زندگی کیسے گزرے گی ؟کس کے آگے جاکر آواز اُٹھائی جائے؟عالمی سطح پر یا ملکی سطح پر کیا کوئی ادارہ ہے؟اگر ہے تو انصاف ملے گا؟ ایسے کئی سوال لیے وہ مہکتی ہوئی کلی مُرجھانا شروع ہو جاتی ہے اور اپنی اُس عملی زندگی کا آغاذ کر دیتی ہے جس میں اب خواب ٹوٹ چکے ہوتے ہیں اور اولاًمقصد اپنے بچوں کی پرورش بن جا تا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ اُس کو کہہ رہے ہیں کہ اس معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہیں اور نہ ہی وہ اُن حقوق کی حقدار ہے جو اُس کیلئے تفویض کیئے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے خانہ داری کے اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں پر کمی پیشی کی بھی وہی ذمہ دار ہو گی۔خاندان کی عزت آبرو اُس کے نام کر دی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ اسکے بدلے اُس محبت کی طلب گا ر ہوتی ہے جس کی اُس کے دل کے کسی کونے میں خوشبو ہوتی ہے توحیران رہ جاتی ہے کہ اب خاوند کیلئے وہ صرف بڑھاپے کا سہارا بن چکی ہے۔کیونکہ خاوند کی "میں" میں بھی خم آچکا ہے۔ "ایک پڑھی لکھی لڑکی کی شادی تو اچھے گھر میں ہوئی لیکن اُسکا خاوند نہ صرف سگریٹ پینے کا عادی تھا بلکہ اپنی بیوی پر تشدد کے دوران سُلگا ہوا سگریٹ اُس کے جسم پر لگا کر اُس کی چیخیں سُنتا اور خوش ہوتا تھا۔"احساس ہی نہیںکرتا تھا کہ کلی مُرجھا رہی ہے"۔ کیا یہی رشتوں کا تقدس ہے؟ ٭…٭…٭



Similar Threads: