ڈھول سپاہی سے کیا حساب کتاب
عبدالقادر حسن

یہ میرے قارئین کی کرمفرمائی ہے کہ وہ میرے کالموں پر اپنے تاثرات کے علاوہ خود بھی کچھ نہ کچھ لکھ کر بھجوا دیتے ہیں۔ ایک خاتون قاریہ اسما حمید نے فوج سے محبت پر ایک پورا کالم ہی لکھ کر بھجوا دیا ہے۔ یہ مجھے اچھا لگا اس لیے آپ کی خدمت میں بھی پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ ڈھول سپاہی سے حساب کیا
بہت غلغلہ برپا ہے اور رہا ہے، مقتدر لبرل حلقوں میں کہ جس فوج کے غازیوں اور شہداء کی عقیدت میں یہ عوامی قوم پاگل ہوئی جاتی ہے وہ دراصل لٹیروں اور غاصبوں پر مبنی ایک مسلح ادارہ ہے جو اس قوم کے وسائل کھا گیا، ہضم کر گیا۔ انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے ان سے حساب لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس نقطہ نظر پر غور کیا تو سمجھ آیا کہ واقعی کچھ حساب تو نکلتے ہیں اس فوج کی طرف ہمارے
میں پوٹھوہار کے جس پسماندہ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں وہاں کے ہر دوسرے گھر کا ایک نہ ایک سپوت پاک افواج کا حصہ ہوتا ہے۔ ان گھروں میں غیر حاضر فوجی کی ماں، بہن یا بیوی نے کڑھائی والے رومالوں سے ہر شے کو سجا رکھا ہوتا ہے۔ پلنگ پوش، تکیہ کے غلاف، ٹین کے بکسے، انگیٹھی تو اپنی جگہ، فوجی جوان کے بیڈ منٹن کے ریکٹ اور پرانی بندوق تک پر کڑھائی سے سجے غلاف نظر آئیں گے آپ کو۔ جو عام نظر نہیں دیکھ پاتی وہ ان دھاگوں کے ٹانکوں میں کڑھے اداسی کے آنسو ہیں۔ آخری ٹانکے کا دھاگا دانتوں سے کاٹتے ہوئے محاذ پہ گئے فوجی کی نئی نویلی دلہن کے دل سے جو آہ نکلتی ہے وہ بھی سنی نہیں جا سکتی۔
اسے تو ثقافتی روایات کے مطابق اپنی اداسی بھی سسرال والوں سے چھپانی ہوتی ہے۔ ہماری یہ دیہاتی خواتین اپنے بیٹوں، بھائیوں، شوہروں کی اداسی ان رنگ برنگے دھاگوں میں پرو دیتی ہیں۔ تنہا زندگی کی ساری بے رنگی ان غلافوں پہ تحریر کر دیتی ہیں۔ ان علاقوں میں انٹرنیٹ عام نہیں اور جہاں وہ فوجی جوان تعینات ہے وہاں موبائل کے سگنل بھی مسئلہ ہیں۔ ڈاکیے ابھی بھی آتے ہیں اور خط کے لفافے دھندلی آنکھوں سے کھولے جاتے ہیں۔ جی ہاں صاحب! ان آنسوؤں، ان آہوں، کڑھائی کے دھاگوں میں پروئے انتظار اور آنکھوں کی دھندلاہٹ کا حساب تو بنتا ہے۔ لینا چاہے بالکل لینا چاہے۔
یہ جو ہمارے بہادر برفیلے موسم کی شدت کے ہاتھوں یا کسی اور معرکے میں بھری جوانی میں ہاتھ پاؤں کٹا بیٹھتے ہیں اور پھر یہ اصرار کہ ہمیں دوبارہ محاذ پر بھیج دیا جائے۔ بے رحم گلیشیئر کے اوپر لگی اینٹی ایئر کرافٹ گن پر جیسے تیسے پہنچا دیا جائے میں بیٹھے بیٹھے نشانہ لگا لوں گا کیا پاگل پن ہے اس پاگل پن کا حساب واقعی لینا چاہیے۔ جی ہاں الاؤنس تو دیا جاتا ہے ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اس معذوری کے عوض۔ جی جو ان کٹے بازوؤں اور ٹانگوں کے الاؤنس کا حساب دیا جائے ہم ٹیکس گزاروں کو۔ اگر یہ الاؤنس نہ دینا پڑے تو ہماری زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے۔ ہم اپنی شامیں رنگین اور پر لطف بنا سکیں حساب دیں جی۔
یہ زلزلوں، سیلابوں، قحط وغیرہ کے ستائے ہمارے شہری جب ہم ان کے بارے میں فیس بک وغیرہ پر اپنی شستہ انگریزی میں بیان داغ رہے ہوتے ہیں، یہ فوجی جوان لینڈ سلائیڈ، بپھری ہوئی موجوں، وبائی امراض، حشرات الارض وغیرہ جیسی چھوٹی موٹی پریشانیوں سے بے فکر خدمت کو پہنچ جاتے ہیں۔ خبریں آئیں کہ شمالی علاقوں کے زلزلہ زدگان کو فوجی اپنے حصے کا راشن دیتے رہے اور خواتین کی میتوں کو اپنے کمبل سے ڈھکتے رہے۔ وہ راشن اور وہ کمبل میرے ٹیکس سے خریدا ہوا اس کا حساب دیا جائے جی ہاں اس فوجی سے جس نے میری کسی بے کفن بہن کو ڈھکا تھا، اس کمبل کا فوراً حساب لیا جائے۔
چلچلاتی دھوپ میں میری گاڑی کا ایئر کنڈیشنر وقت لیتا ہے گاڑی کو ٹھنڈا کرنے میں حفاظتی ناکوں پر اور میرے بچوں کے اسکولوں کے باہر یہ فوجی گرم وردیوں میں اور لمبے چمڑے کے بوٹوں میں، ہیلمٹ پہنے، تپتی بندوقیں ہاتھ میں لیے چوکس کھڑے ہوتے ہیں۔ سنا ہے کافی لمبا دورانیہ ہوتا ہے ان کی ڈیوٹی کا میرے بچوں کی حفاظت کے لیے۔ ان کے بھی بچے ہوں گے جن کے سر پر یتیمی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے لیکن پھر کیا ہوا۔ تنخواہ ملتی ہے انھیں۔ اسی تنخواہ کا حساب ہونا چاہیے۔ ایفی ڈرین اور حج اسکینڈل رینٹل پاور ترکی والے ہار وغیرہ وغیرہ کا حساب پھر ہوتا رہے گا۔
یہ ملک مستقل حالت جنگ میں ہے اور اس کے فوجی جب اگلے مورچوں پر ہوتے ہیں تو ان کے گھروں میں جو بے خواب راتیں گزرتی ہیں ان کے لیے کوئی حساب کا پیمانہ ہے کیا کسی اہل دل کے پاس؟
یہ جو ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے ان کی شہید میتیں ان کے گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں اور ان کی ماؤں کے ہاتھوں میں ان کی وردی اور ٹوپی پکڑائی جاتی ہے اس وقت سب حساب بے معنی سے ہوتے نظر آتے ہیں پتہ نہیں کیوں۔
یہ جو ہم متوسط طبقہ کے لوگ ہیں نا جی، جنھیں ہمارے ملک کی intelligencia نام نہاد نظریاتی قرار دیتی ہے۔ ہمارا بھی جی ایک رومانس ہے یہ ملک، اس کی زمین، اس کا آسمان، اس کا نظریہ، اس کی فوج۔ ہم سے ہمارا آسمان، ہماری زمین، ہمارے خواب نہ چھینے۔ کالی بھیڑیں ہر محکمے میں ہیں لیکن غازی اور شہید ایک ہی ادارے کے پاس ہیں۔ ہمیں ہماری بے وقوف محبت میں مبتلا رہنے دیجیے۔ پاک فوج سے محبت ہمارا Culture ہے۔
بچپن سے جب فوجی پریڈ ہوتی تھی تو پی ٹی وی کے آگے بیٹھ جایا کرتا تھا سارا خاندان۔ SSG کمانڈو جب اللہ ہو کا نعرہ لگاتے ہوئے آتے تھے تو لگتا تھا ہمارا رواں دواں ان کے ساتھ پریڈ کر رہا ہے۔ جب قومی جھنڈا زمین پر گرنے سے پہلے Paratrooper اٹھا لیتے تھے تو آنکھیں دھندلا جاتی تھیں۔ ہم ہیں ہی جذباتی لوگ اور ہماری فوج ہمارے جذبوں کی امین۔ مجھے یاد ہے میں بچپن میں اپنے بیٹے کو اس کی اردو کی کتاب میں سے نشان حیدر کا سبق پڑھا رہی تھی (اصرار ہے نصاب سے غیر ضروری اسباق نکالے جانے پر)۔ جب آخری سطر میں شہید کے باپ کا یہ جملہ پڑھایا کہ اگر میرے اور بیٹے بھی ہوتے تو وطن پر قربان کر دیتا، تو میری آواز بھرا گئی۔
بچے نے ماں کو جذباتی ہوتے دیکھا تو پوچھا امی! کیا وہ ہمارے کوئی انکل تھے؟،، اور میں نے اسے پیار کر کے بتایا کہ ہاں سب پاک افواج کے شہدا اور غازی تمہارے انکل ہیں۔ ہم نے یہی سیکھا تھا فوجی یا تو ڈھول سپاہی ہوتا ہے یا فوجی بھائی یہ لٹیرے، غاصب، پراپرٹی ڈیلر وغیرہ جیسے خطاب تو اس بے رحم سیاست نے ایجاد کیے۔ ڈھولے سے اور بھائی سے تو محبت کی جاتی ہے، عشق کیا جاتا ہے اور عشق میں حساب کیسا!۔ ان کی سلامتی کی دعائیں ہاں ان کا حق ہیں۔
آج 6 ستمبر کو میری ساس نے جو ایک غازی کی بیوہ ہیں، بڑا کھانا،، بنوایا ہے حسب معمول گوشت کا سالن، چاول، سویاں حساب تو دینا ہو گا کیا کسی لبرل کو؟
Similar Threads:
Bookmarks