ہمیں لاچار بھارتیوں کا بھی خیال ہے
عبدالقادر حسن

ھارتی وزیراعظم اپنی اہمیت بنانے کے لیے کچھ عرصہ سے پاکستان پر حملہ آور ہیں اور نام بنا رہے ہیں، ان کے خیال میں پاکستان کے ساتھ خونریز قسم کی چھیڑ چھاڑ انھیں زیادہ نہیں تو برصغیر میں کوئی اہمیت دلا دے گی لیکن وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ پاکستان ان کو جو زبانی کلامی جواب دے رہا ہے۔
اس سے ان کی جنتا کا کیا حال ہے اور وہ دل ہی دل میں کس قدر خوفزدہ ہے اس طرح جناب مودی صاحب ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ سے اونچے نہیں اٹھ پائے کجا کہ بھارت والے ان کی ذات کو پاکستان کے برابر کی کوئی چیز سمجھ لیں۔ پاکستان کی ایک زبردست اور تاریخی حماقت جس کا نام سقوط ڈھاکا یا بنگلہ دیش ہے۔ اس میں مودی صاحب کے الفاظ میں انھوں نے بطور خاص ڈھاکا کا سفر اختیار کیا اور بھارتی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کی تحریک کو کامیاب کیا۔کامیاب تو کیا کیا پاکستان کی حماقت کی تصدیق کر لی ورنہ دنیا کے کمزور ملک بھی مر جاتے ہیں اپنے وطن کی ایک اینٹ بھی کسی کے حوالے نہیں کرتے، پاکستان تو ایک بڑا ملک تھا اور اب پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہے لیکن اپنوں کی غداری کا مقابلہ کون کر سکتا ہے پاکستان بھی نہ کر سکا، اس کے تو سربراہ اور با اثر وزراء اس قومی غداری میں شامل تھے۔
انھوں نے محب وطن پاکستانیوں کے دلوں پر جو داغ لگا دیے ہیں انھیں کبھی کوئی تاریخی عمل ہی دھو سکے گا اور ہمارے ایک شاعر کے بقول ع خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔ اور یہ برساتیں ہماری خون کی ہوں گی بہر کیف بنگلہ دیش کی صورت میں ہمیں جو داغ لگا ہے اس میں مودی صاحب کا بھی ہاتھ ہے اور اس پر وہ فخر کرتے ہیں۔
یہ فخر ان کا حق ہے کہ دشمن کے خلاف کامیاب دشمنی بلاشبہ ایک قابل فخر کارنامہ ہے لیکن مودی صاحب کا جو جی چاہے کہتے رہیں ان کا ہندواتوا ان کے دل میں ہی زندہ رہے گا، وہ کل صبح پہلی پراتھنا یہ کریں کہ ان کی پاکستان سے مڈبھیڑ نہ ہو ورنہ۔ خود پاکستانی بھی مودی کے بھارت کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایک تو پاکستان جیتے یعنی انیس بیس کروڑ مسلمان وہاں آباد ہیں دوسرے ایک عام بھارتی جو غربت کا مقابلہ کرتے کرتے ادھ موا ہو چکا ہے بے قصور ہے وہ جو کسی بڑے شہر کے فٹ پاتھ پر پیدا ہوتا ہے۔
اس پر جوان ہوتا ہے اس پر اس کی شادی ہوتی ہے اسی پر اس کی اور اس کے اہل و عیال کی باقی زندگی گزرتی ہے اور پھر اسی پر وہ آخری سانس لیتا ہے۔ بھارت کے ہر بڑے شہر میں یہ بھی ایک معمول کی زندگی ہے، پاکستان ان پیدائشی بے گھر لوگوں کو کسی ایٹمی آگ میں جلا کر کیا لے گا۔ جلنا تو اس کو ہوتا ہی ہے مگر ہم یہ گناہ اپنے سر کیوں لیں۔
جناب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس قدر بے چین اور بے تاب نہ ہوں ان کا شوق بھی پورا کیا جا سکتا ہے اور جس بے ڈھنگی رفتار سے وہ چل رہے ہیں اس کے راستے میں پھسلن بھی بہت آتی ہے اس لیے انھیں راستہ دیکھ بھال کر چلنا چاہیے۔ ہمارے مسلمانوں کا ایک معزز اور عالم طبقہ تو اس پاکستان پر راضی بھی نہیں تھا جسے مودی صاحب نے نصف کرنے میں حصہ لیا ہے۔ ہمارے ان مسلمانوں کی یہ ضد تھی کہ ہندوستان ہمارا ہے جسے اندرا گاندھی نے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی غلام قرار دیا تھا۔
انگریزوں نے ہندوؤں سے نہیں مسلمانوں سے ہندوستان چھینا تھا اوراب جب وہ اس ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو مسلمانوں سے چھینا ہوا مال اسے واپس کر دیں لیکن یہ ایک لمبی بحث ہے کہ دنیا ایک مسلمان ریاست سے خوفزدہ تھی اور وہ بادل نخواستہ اسے کسی کمزور شکل میں واپس کر گئی اور ستم یہ ہوا کہ اس نئے ملک کو انگریز اپنے تربیت یافتہ اور نمک خوار طبقے کے سپرد کر گئے جو اسے اب تک (2015) تک کھا رہے ہیں اور ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں کہ پاکستانیوں کے سر جھک جاتے ہیں۔
ہمارے کسی صدر اور کئی وزرائے اعظم کی رشوت خوری کے نام سامنے آ رہے ہیں اور یہ انکشاف ان کے ذاتی عملے کے لوگ کر رہے ہیں۔ یہ رشوت ستانی اور کرپشن لاکھوں کروڑوں میں نہیں اربوں میں ہے۔ کسی اعلان کے بغیر ایک عام سا اندازہ ہے کہ یہ تمام انکشافات اور رشوت خوروں کے اسمائے گرامی کسی بڑی طاقت کے اشارے پر ہو رہے ہیں اور جو جتنا بڑا ہے وہ اتنا ہی زیادہ کانپ رہا ہے۔ ہمارے ایک بڑے اور اونچے طبقے پر کپکپی طاری ہے کیونکہ جن کے نام اب تک سامنے نہیں آئے وہ کسی بھی دن ظاہرہو سکتے ہیں۔
اب یہ بڑے بلکہ بہت بڑے لوگ گرفتار بھی ہونے والے ہیں اور ان پر جب مقدمے چلیں گے تو دنیا حیرت زدہ رہ جائے گی کیونکہ مقدموں کے دوران کئی ضمنی نام بھی ظاہر ہوں گے۔ جتنے لوگوں کے اسمائے گرامی سامنے آئے ہیں وہ ہماری رپورٹنگ کے زمانے کے لوگ ہیں تب وہ اپنے اوپر ایک رنگین اور سنہرا خلاف چڑھا رکھتے تھے اور اپنے آپ کو اس میں چھپائے رکھتے تھے۔
ہم بھی وضعداری کی مار کھا جاتے تھے، دوسرے ان لوگوں کا رعب اتنا تھا کہ تھانیدار سے لے کر آئی جی تک ان کی ناز برداری کرتے تھے اور ان کے خلاف کسی کارروائی کی کامیابی آسان نہیں تھی بہر کیف وقت گزرتا گیا اور اب ایک اسے مقام پر آن پہنچا ہے کہ جہاں نہ جانے کتنی ہی مشکلیں آسان ہو گئی ہیں اور خود یہ لوگ اس قدر گھبرا گئے ہیں کہ اپنے خلاف کسی کارروائی پر کسی جنگ کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔
Similar Threads:
Bookmarks