اسد سلیم شیخ
میٹرو ہوٹل اور میلا رام کی عمارت سے تھوڑا سا آگے اس زمانے کا مشہور نیڈو ہوٹل تھا۔ یہ ہوٹل یورپ سے آئے ہوئے نیڈو خاندان نے بیسویں صدی کے آغاز میں تعمیر کیا تھا۔ ۱۹۴۰ء تک قائد اعظم محمد علی جناح اور کئی دوسرے مسلم لیگی لاہور آتے تو اس ہوٹل میں قیام کرتے۔اب یہاں ’’آواری‘‘ ہوٹل ہے۔اس کے بالکل سامنے لاہور چڑیا گھر کا داخلی دروازہ ہے۔قیام پاکستان سے پہلے ایک دفعہ کسی طرح ایک شیر نے باڑ پھلانگ کر مال روڈ کی طرف دوڑ لگا دی تھی جہاں اس کو گولی کے ذریعے مار دیا گیا۔اس کے بعد یہاں بیس فٹ اونچی فولادی باڑ لگا دی گئی تھی تا کہ مستقبل میں اس طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔چڑیا گھر کے ساتھ ہی لارنس باغ میں اوپن ائیر تھیٹر تھا جو رومن ایمفی تھیٹر کی طرز پر بنایا گیا۔شوقیہ اداکار اس کے دل کش ماحول میں ڈرامے اور کنسرٹس کرتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔اسی باغ کے اندر جم خانہ کلب تھا جہاں سے مونٹ گمری ہال کا نظارہ بھی ہوتا تھا۔کوئی مقامی آدمی اس عظیم الشان عمارت میں نہیں جاسکتا تھا۔اس کی خوب صورتی سے سجی ہوئی رقص گاہ شیشے کی کھڑکیوں سے موقع بہ موقع رقص کرتے ہوئے جوڑوں کا دھندلا سا عکس دیکھا اور موسیقی کی آواز سُنی جاسکتی تھی۔مونٹ گمری ہال کے ساتھ جُڑواں ہال لارنس ہال ہے۔باغ کے دوسرے حِصّے میں کا سموپولیٹین کلب واقع تھا جو مغرب زدہ مقامی اشرافیہ کی ملاقات گاہ تھی۔یہ حکم رانوں کی طرح اکڑ کر چلتے اور بھورے صاحبوں کے سے طرز عمل پر فخر کرتے تھے۔ لارنس باغ اور گورنر ہائوس کے آگے ایچی سن کالج آجاتا۔پھر اس سے آگے پنجاب کلب تھا جو انگریزی طبقہ اشرافیہ کی ایک اور ممتاز رہائشی اور ملاقاتی جگہ تھی۔یہاں صاحبان اور میم صاحبان گپ شپ اور بناوٹی اظہار محبت کرتے تھے جو ان میں سے کئی ایک وقت گزاری کے لیے مقبول ذریعہ تھا۔اس زمانے میں نہر تک دونوں اطراف میں کہیں رہائشی بنگلے اور کچھ دیگر عمارتیں بھی وجود میں آچکی تھیں۔ان میں سے ایک وہ قدیم عمارت قابل ذکر ہے جو موجودہ پرل کانٹیننٹل ہوٹل کے ساتھ واقع تھی اور نر سنگھ داس بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ آج کل وہاں نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کچھ دوسرے ادارے موجود ہیں۔معروف ادیب اے حمید مرحوم نے پاک ٹی ہائوس کی محفلوں کو ’’یادوں کے گلاب ‘‘میں ان الفاظ ؛میں یاد کیا ہے: ’’اب ہماری ادیبوں اور شاعروں کی مُنڈلی نے پیرا ڈائز ہوٹل کو الوداع کہا اور پاک ٹی ہائوس کو آباد کیا۔پاک ٹی ہائوس کا دَور ہماری اَدبی زندگی کا طویل ترین دور ہے۔اس ٹی ہائوس میں ہم لوگوں نے دس بارہ برس بسر کئے۔دن کے آٹھ نو بجے ہم لوگ یکے بعد دیگرے اپنے گھروں سے نکل کر پاک ٹی ہائوس آجاتے اور رات کے بارہ ایک بجے تک یہیں بیٹھے رہتے۔خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا۔اچھا کھاتے،پہنتے اور سوائے افسانے،غزلیں اور نظمیں لکھنے کے اور کوئی کام نہ کرتے۔کسی وقت ہاتھ تنگ ہوتا تو فوراًکسی نہ کسی پبلشر سے ایڈوانس لے آتے اور حالات پھر خوش حال ہوجاتے۔ اگر مجھ میں اتنی قدرت ہوتی کہ میں ماضی کا پردہ چاک کرکے آپ کو سولہ سترہ برس پہلے کا پاک ٹی ہائوس دکھا سکتا تو آپ دیکھتے کہ اس ٹیبل پر انور جلال کے قہقہے گونج رہے ہیں۔دوسری ٹیبل پر ظہیر کاشمیری،حمید اختر اور عبداللہ ملک جدلیاتی قدروں پر زور شور سے بحث کررہے ہیں۔تیسری میز پر کالے بالوں اور چمکتی آنکھوں والا ناصر ؔکاظمی اپنی کوئی غزل ترنم سے پڑھ کر سُنا رہا ہے۔چوتھی میز پر میں ،صفدر میر،نواز،حسن طارق اور ابنِ انشا( مرحوم) اپنے مرحوم دوست اختر عکسی کے کسی لطیفے پر کرسیوں سے اچھل اچھل کر ہنس رہے ہیں۔دروازے کے ساتھ والی میز پر قیوم نظر،شہرت بخاری اور انتظار حسین نے اپنی محفل سجا رکھی ہے۔کیسا چمک دار چہرہ تھا شہرت بخاری کا:کیسی روشن اور دُھلی دھلائی بے داغ آنکھیں تھیں اس خوب صورت غزل گو شاعر کی۔مجھے یقین ہے ماضی کے پاک ٹی ہائوس کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد آپ کو آج کا ٹی ہائوس ایک ویرانہ نظر آئے گا۔آج کے ٹی ہائوس میں سب کچھ ہے مگر وہ بات نہیں جو ہمارے دور میں ہوا کرتی تھی۔شعر کہنے والے،افسانے لکھنے والے،قہقہے لگانے والے،اپنی غزلیں اور افسانے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے اور اب ان کی غزلوں اور افسانوں کی باز گشت بھی وہاں سنائی نہیں دیتی۔پُرانے بیرے کچھ اللہ کو پیارے ہوگئے۔باقی بوڑھے ہوگئے۔سفید بال چاندی ہوگئے،چاندی سونابنی اور سونا خاک میں مل گیا۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks