ان بحثوں اور دلیلوں کے باوجود ہم اس دھرتی کے باسیوں کے لیے یہ بات تصور کے امکان سے باہر نظر آتی ہے کہ ہمارے سادہ اور روزمرہ کے الفاظ ’’ابھی‘‘ ’’اسی وقت‘‘، یا ’’فوراً‘‘ کا اطلاق کائنات کے صرف اسی حصے سے تعلق رکھتا ہے جو ہمارا اپنا نظام ہے، کسی دوسرے نظام سے ان الفاظ کا تعلق نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس تصور کو مثالوں اور دلیلوں کی مدد سے آئن سٹائن نے اپنے ’’خصوصی نظریۂ اضافیت‘‘ (Special Theory of Relativity) میں پیش کیا۔ جس کو کچھ مثالوں سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک شخص سمندری جہاز کے عرشے پر تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹہل رہا ہے اگر اسی سمت میں جہاز کی رفتار 12 میل فی گھنٹہ ہو، تو سمندر کے لحاظ سے اس شخص کی رفتار15=3+12 میل فی گھنٹہ ہو گی، اور اگر وہ جہاز کے مخالف سمت میں ٹہل رہا ہو، تو اس کی رفتار 9=3-12 میل فی گھنٹہ ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر ہم یہ مان لیں کہ ایک ریلوے کراسنگ پر بجلی کی الارم گھنٹی لگی ہے، جو ٹرین کے گزرنے سے کچھ پہلے بجنے لگتی ہے۔ گھنٹی کی آواز 400 گز فی سیکنڈ کی رفتار سے چاروں طرف پھیلتی ہے۔ اب اگر ٹرین 20 گز فی سیکنڈ کے حساب سے اس کراسنگ کی سمت میں ہے تو ٹرین میں بیٹھے ہوئے آدمی کے لیے آواز کی رفتار 420 گز فی سیکنڈ ہونی چاہیے اور ٹرین کے کراسنگ پار کر لینے کے بعد 380 گز فی سیکنڈ ہونی چاہیے۔ رفتار کی جمع تفریق کا یہ سیدھا سادہ طریقہ گلیلیو کے زمانے سے لوگوں کو معلوم تھا۔ اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اسی اصول کے مطابق جب روشنی کی رفتار پر غور کیا گیا تو معاملہ مختلف دکھائی دینے لگا۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ اگر کراسنگ پر گھنٹی کی آواز کے بجائے ریلوے سگنل سے تیز روشنی نکل کر ریل کی پٹڑی پر پڑتی ہوئی مان لی جائے اور روشنی کی رفتار کو (c) فی میل سیکنڈ، تو اگر گاڑی سگنل کی سمت میں (u) میل فی سیکنڈ کے حساب سے جا رہی ہو تو گاڑی کے اندر بیٹھے آدمی کو روشنی کی رفتار (u+c) میل فی سیکنڈ معلوم ہو گی۔ کراسنگ پار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار (c+u) میل فی سیکنڈ دکھائی دینی چاہیے۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے، جو منظق اور ریاضی دونوں طریقے سے پوری اترتی ہے۔ مگر مائیکل سن مورلے (Michelson Morley) نے ثابت کر دیا ہے کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ گاڑی کے روشنی کی طرف جانے اور اس کے خلاف سمت جانے سے روشنی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ چونکہ روشنی کی رفتار ساری کائنات میں یکساں ہوتی ہے، اس لیے ریل گاڑی کی رفتار کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم مان بھی لیں کہ گاڑی دس ہزار میل فی سیکنڈ کے حساب سے کراسنگ کی سمت میں جا رہی ہے تب بھی گاڑی میں سوار مسافروں کو روشنی کی رفتار 282 186 میل فی سیکنڈ ہی نظر آئے گی۔ (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن :داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭ …٭
Similar Threads:
Bookmarks