ذات کی بینائی
جب بھی کوئی جذبہ
ذات کے شرق سے
طلوع ہوتا ہے
اک ان جانے خوف سے
کہ پگھل نہ جاؤں
وحشتوں کے جنگل میں
کھو نہ جاؤں
پلکیں جذبے کا بھید
کھول نہ دیں
ذات کی بینائی
ذیست کے محور سے
ہٹ جاتی ہے
بٹ جاتی ہے
واپسی کے دروازے پر
بےکسی کا قفل پڑ جاتا ہے
یہ خوف
بنی آدم کو
غاروں کی دنیا سے
باہر آنے نہیں دیتا
بےحس جیون کے مکھڑے پر
ویجے کے گلاب کھلتے آئے ہیں
شانتی کا کفن میلا میلا رہا ہے
1976
Similar Threads:
Bookmarks