2015 کو بلدیاتی انتخابات کا سال ہونا چاہیے
ظہیر اختر بیدری

ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں جمع کرلیا ہے، ارتکاز اختیارات جہاں ہوتا ہے وہاں ارتکاز زرکا دروازہ خود بخود کھلتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے ارتکاز زر کے بے شمار وسیلے موجود ہیں لیکن ہوس زر نے اشرافیہ کو اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ ارتکاز زر کا کوئی وسیلہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اس حوالے سے ہمارا بلدیاتی نظام اشرافیہ کے لیے اس قدر نقصان رساں بن گیا ہے کہ وہ ہر حیلے ہر بہانے بلدیاتی انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کرتی ہے۔
لگ بھگ آٹھ سال بعد اور بار بار کی بہانے بازیوں کے بعد عدلیہ نے ستمبر 2015 میں الیکشن کرانے کی حتمی تاریخ دے دی تھی لیکن حکومتی اشرافیہ حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں وغیرہ کے حوالے سے بلدیاتی انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن عدلیہ ان بہانے بازیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی بات ہوگئی اور پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ میں آنے والے سیلاب نے اس اشرافیہ کو ایک ایسا بہانہ فراہم کردیا کہ عدلیہ بھی مجبور ہوگئی کہ ستمبر کے انتخابات کو ملتوی کردے۔
اب بات 2015 کے آخر تک جا رہی ہے اور 2015 کے اختتام تک کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ حکومتی اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے گا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کو 2016 تک لے جانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پنجاب اور سندھ میں حکمران طبقہ بلدیاتی انتخابات سے گریزاں کیوں ہے؟ بلدیاتی نظام قائم ہوتے ہی انتظامی اور مالیاتی اختیارات صوبوں کے ہاتھوں سے نکل کر ٹاؤن اور یوسی کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ یہ دونوں اختیارات کرپشن کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اور کرپشن بھی کوئی چھوٹی موٹی نہیں بلکہ اربوں روپوں کی ہے۔
انتظامی اختیارات کی وجہ صوبائی حکومتیں بیوروکریسی کے ذریعے عوام کو آسانی سے قابو کرسکتی ہیں۔ بلدیاتی نظام کے نہ ہونے سے جو کام بلدیاتی ادارے دو کروڑ میں کراتے ہیں، انھیں صوبائی حکومتیں دو ارب میں کرانے کا اختیار حاصل کرلیتی ہیں، اس کرپٹ نظام میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو ترقیاتی کاموں کے نام پر جو کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، وہ کاغذی کارروائیوں کے ذریعے منتخب ارکان کے بینکوں میں چلے جاتے ہیں اور ترقیاتی کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
میڈیا کے شور شرابے سے اب صوبائی حکومتیں مجبور ہو رہی ہیں کہ دکھاوے کے لیے ہی سہی کچھ نہ کچھ کام کریں لیکن ہماری اشرافیہ اور اس کی استاد بیوروکریسی ایسے ایسے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں کہ سانپ بھی مر جاتا ہے لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔
بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ جو تھوڑا بہت کام منتخب نمایندے کر لیتے ہیں، اس کا کریڈٹ وہ خود لے جاتے ہیں اور اس کے پروپیگنڈ پر اتنا سرمایہ خرچ کردیتے ہیں کہ عوام ان کے کارناموں کے اعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس کا فائدہ یہ محترمین عام انتخابات میں حاصل کرلیتے ہیں۔
بلدیاتی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ علاقائی مسائل علاقوں کی سطح پر حل ہونے لگتے ہیں جو ناظمین عوام کے کام ایمانداری اور خلوص سے کرتے ہیں وہ عوام میں مقبول ہوجاتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نمایندے قومی اور صوبائی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو عوام انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور انھیں اپنے ووٹ دے کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچانے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔یہ سلسلہ غیر محسوس طریقے سے نچلی سطح سے قیادت ابھارنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
بلوچستان ایک انتہائی حساس اور شورش زدہ صوبہ ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ ہے لیکن ان دونوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے جا چکے ہیں اگرچہ ان صوبوں کے انتخابات کو متنازعہ بنانے کے لیے الزامات کی بھرمار کی گئی لیکن ان صوبوں میں بلدیاتی نظام آہستہ آہستہ جڑیں پکڑ رہا ہے اگر بلدیاتی نمایندے ایمانداری اور خلوص سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں تو ان صوبوں کے عوام کے مسائل علاقائی بنیادوں پر حل ہونے لگیں گے اور صوبائی حکومتوں کے لیے کرپشن کے مواقعے کم سے کم ہوتے جائیں گے۔
ہمارے ملک میں اشرافیہ نے سیاست اور اقتدار پر جس مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اس کو اپنی آنے والی نسلوں تک لے جانے کے لیے اس عوام دشمن اشرافیہ نے عوام کی سیاست اور اقتدار تک رسائی کا راستہ ولی عہدوں کے ذریعے روک رکھا ہے، ملک پر بڑی پارلیمانی پارٹی کے قائدین نے بیٹوں، بیٹیوں، بھائیوں، بہنوں کی ایسی کھیپیں تیار کی ہیں اور انھیں عوام میں متعارف کرانے اور مقبول بنانے کے لیے عوام کی دولت کو اس بیدردی سے لٹایا جا رہا ہے کہ عوام کی یہ دولت میاں کا سر میاں کا جوتا بن گئی ہے۔
دھرنوں کی سیاست کرنے والے محترمین جس ہدف کے پیچھے دوڑ رہے تھے اس میں عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ اس کا فائدہ حکمراں طبقات کو یہ ہوا کہ دھرنا تحریک کی ناکامی حکمرانوں کی کامیابیوں میں بدل گئی جس کا باالواسطہ فائدہ اشرافیہ کو یہ ہوا کہ اب اس کے سامنے کوئی جینوئن حزب اختلاف نہیں رہی اور وہ آسانی سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر سکے گی۔
بلدیاتی نظام اگر تسلسل کے ساتھ چلتا ہے تو اس کا فائدہ جہاں علاقے کے عوام کو ہوگا وہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ کراچی میں مصطفیٰ کمال کی محنت نے انھیں ہر دلعزیز بنا دیا ۔
بلدیاتی نظام کا یہی ایک فائدہ ہے کہ اس نظام میں نچلے اور درمیانے طبقے کے ایماندار اور عوام سے مخلص نمایندوں کو آگے آنے کے مواقعے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس اشرافیہ کے لیے بلدیاتی نظام ایک بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے جو ولی عہدوں کی فوج کے ذریعے حق سیاست اور حق حکمرانی کو اپنی آنے والی نسلوں تک محفوظ بنانا چاہتی ہے۔ امید تو یہی ہے کہ 2015 کے آخر تک ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوجائیں گے لیکن یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ بھیس بدل بدل کر آنے والی اشرافیہ اور اس کی اولاد کو بلدیاتی انتخابات میں ناکام بنائے۔
Similar Threads:
Bookmarks