google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 9 of 9

    Thread: وقت کا پیمانہ

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      وقت کا پیمانہ



      خلا میں کوئی معیار ایسا نہیں ہے جو مطلق ہو، جس کی نسبت سے کسی دوسری چیز کی پیمائش کی جا سکے۔ جہاں تک وقت (زماں) کا تعلق ہے، آئن سٹائن کے مطابق اس کا بھی کوئی پیمانہ نہیں، زمانہ ازل سے ہے، ابد تک رہے گا۔ بقول اقبال ع ’’ازل اس کے پیچھے، ابد اس کے آگے۔‘‘آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے سمجھنے میں عام آدمی کو جو دشواری ہوتی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک خاص تربیت سے بنتا ہے۔ رنگ و بُو کو ہم حقیقت میں سمجھتے نہیں، ہم کو اس کا صرف احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زمانہ یا وقت صرف احساس کا نام ہے۔ اگر آنکھیں نہ ہوں، تو ہمیں رنگ کا احساس نہ ہو، ناک نہ ہو تو بُو محسوس نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وقت کا احساس بھی تب ہوتا ہے جب کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ رونما ہو، جہاں سے ہم اس کا اصل جاننے کا احساس کر سکتے ہوں۔آج، کل، صبح، شام، اسی صورت میں بامعنی الفاظ بنتے ہیں جب ہم سورج کے طلوع یا غروب ہونے کا تصور کرتے ہیں، ورنہ راکٹ میں سفر کرنے والے مسافر کے لیے نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام، نہ دن ہے، نہ رات! شاید اقبال کے ذہن میں بھی یہی تصور ہوگا، جب اس نے یہ شعر کہا: تیرے شب و رُوز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات راکٹ کے مسافر زیادہ سے زیادہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ پرواز کرنے سے لے کر اب تک ان کی گھڑی کی سوئی کتنی بار گھوم چکی ہے۔ لیکن ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے ساتھ بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ یہی نا کہ گھڑی کا وقت یا کیلنڈر کی تاریخ دیکھ کر ایک واقعے کا کسی دوسرے واقعہ سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ’’میں چھ بجے سو کر اٹھا‘‘ ، ’’دس بجے دفتر پہنچا۔‘‘ ’’کل میں بازار گیا تھا۔‘‘ ان جملوں سے یہی بتانا مقصود ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے اور دفتر پہنچنے کے درمیان کتنا وقت گزرا؟ بازار جانے سے لے کر آج تک کتنا عرصہ ہوا؟ اس طرح وقت یا مدت کا تعین ہم اپنے لیے تو کر سکتے ہیں لیکن پوری کائنات کے لیے نہیں کر سکتے۔ لیکن پوری کائنات کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہماری گھڑیاں، جن سے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، مہینے اور سال کا حساب لگایا جاتا ہے، نظامِ شمسی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ جسے ہم ’’ایک گھنٹہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اصل میں ہماری دنیا کا اپنے محور پر 15 ڈگری کا چکر کاٹنے کا دوسرا نام ہے، جسے ہم ایک سال کہتے ہیں۔ وہ ہماری دنیا کے سورج کے چاروں طرف ایک پھیرا لگانے کا نام ہے۔اگر ہم عطارد نامی سیّارہ میں بیٹھ کر اسی اصول کے تحت حساب لگانے بیٹھیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ سیّارہ سورج کے گرد ایک چکر 88 دنوں میں لگاتا ہے تو اس طرح وہاں کا سال 88 دنوں کا ہوگا اور ٹھیک اسی مدت میں (یعنی ہمارے 88 دنوں میں) عطارد اپنے محور کے گرد بھی ایک چکر مکمل کر لے گا۔ یعنی اس کا ایک دن ہمارے حساب سے 88 دنوں کا ہوگا۔ اور سال بھی 88 دنوں کا۔ دن اور رات، مہینہ اور سال کا حساب اور بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، جب ہم سورج سے پرے ہو کر کائناتِ بسیط کی صورتِ حال پر غور کرنے لگتے ہیں۔ وہاں نہ سورج ہے، نہ چاند!ان حالات میں اضافیت کا یہ اصول طے پایا کہ کسی ایک نظام سے باہر، وقت کا کوئی مقررہ پیمانہ نہیں ہوتا ہے۔ جب کبھی وقت کا درمیانی وقفہ ناپنے کی کوشش کی جائے گی، یہ کسی مخصوص نظام ہی کے تحت ہوگا۔ جب تک اس نظام کا حوالہ نہ ہو، ’’ابھی‘‘، ’’اسی وقت‘‘، ’’فوراً‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ فرض کیجئے کہ سعید نیویارک سے اپنے بھائی حمید کو لندن ٹیلیفون کر رہا ہے۔ نیویارک میں شام کے سات بجے ہیں اور لندن میں رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ ان دونوں شہروں کے وقت میں پانچ گھنٹوں کا فرق ہے۔ اس کے باوجود سعید اور حمید یہی کہیں گے کہ وہ ’’ایک ہی وقت‘‘ میں باتیں کر رہے تھے!اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نظام میں بس رہے ہیں۔ ان کی گھڑیاں ایک ہی نظام کے حساب سے کام کر رہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کی گھڑیاں اس کرئہ ارض کے اپنے محور پر گھومنے کے حساب سے درست کی ہوئی ہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پر غور کریں۔ ستاروں کے جھرمٹ میں روشن ترین ستارہ سماک رامح(Arctum) ہے جو 30 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی وہاں سے جو روشنی چلتی ہے وہ 186282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر 30 سال گزرنے کے بعد ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ اس ستارے پر ریڈیو کے ذریعہ اشارے (سگنل بھیجے جائیں تو وہاں تک پہنچنے میں انہیں 38 برس اور ان کی واپسی کے لیے اور 38سال لگ جائیں گے۔گویا جو روشنی آج وہاں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ 30 نوری سال قبل وہاں سے چلی تھی۔ ان 30 نوری برسوں کی مدت میں خدا معلوم، اس ستارے کا وجود باقی بھی ہے یا نہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ عین ممکن ہے کہ اس اثنا میں وہ خوشنما ستارہ ختم ہو چکا ہو اور جو روشنی ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس ستارے کا بھوت ہو۔ سچ کہا تھا مرزا غالب نے ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کُھلا (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن:داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭ -


      Similar Threads:

    2. #2
      ....You don't need to follow trends to be stylish..... Admin Admin's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Dubai , Al Mamzar
      Posts
      8,008
      Threads
      254
      Thanks
      372
      Thanked 294 Times in 242 Posts
      Mentioned
      681 Post(s)
      Tagged
      6427 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وقت کا پیمانہ

      Thanks For Sharing


    3. #3
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وقت کا پیمانہ

      Quote Originally Posted by Admin View Post
      Thanks For Sharing





    4. #4
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: وقت کا پیمانہ

      Nice Sharing
      Thanks For Sharing


    5. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وقت کا پیمانہ

      Quote Originally Posted by UmerAmer View Post
      Nice Sharing
      Thanks For Sharing



    6. #6
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 586 Times in 427 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      199

      Re: وقت کا پیمانہ

      Thanks for great sharing






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    7. #7
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وقت کا پیمانہ

      Quote Originally Posted by Rania View Post
      Thanks for great sharing




    8. #8
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      511

      Re: وقت کا پیمانہ

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post


      خلا میں کوئی معیار ایسا نہیں ہے جو مطلق ہو، جس کی نسبت سے کسی دوسری چیز کی پیمائش کی جا سکے۔ جہاں تک وقت (زماں) کا تعلق ہے، آئن سٹائن کے مطابق اس کا بھی کوئی پیمانہ نہیں، زمانہ ازل سے ہے، ابد تک رہے گا۔ بقول اقبال ع ’’ازل اس کے پیچھے، ابد اس کے آگے۔‘‘آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے سمجھنے میں عام آدمی کو جو دشواری ہوتی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک خاص تربیت سے بنتا ہے۔ رنگ و بُو کو ہم حقیقت میں سمجھتے نہیں، ہم کو اس کا صرف احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زمانہ یا وقت صرف احساس کا نام ہے۔ اگر آنکھیں نہ ہوں، تو ہمیں رنگ کا احساس نہ ہو، ناک نہ ہو تو بُو محسوس نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وقت کا احساس بھی تب ہوتا ہے جب کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ رونما ہو، جہاں سے ہم اس کا اصل جاننے کا احساس کر سکتے ہوں۔آج، کل، صبح، شام، اسی صورت میں بامعنی الفاظ بنتے ہیں جب ہم سورج کے طلوع یا غروب ہونے کا تصور کرتے ہیں، ورنہ راکٹ میں سفر کرنے والے مسافر کے لیے نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام، نہ دن ہے، نہ رات! شاید اقبال کے ذہن میں بھی یہی تصور ہوگا، جب اس نے یہ شعر کہا: تیرے شب و رُوز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات راکٹ کے مسافر زیادہ سے زیادہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ پرواز کرنے سے لے کر اب تک ان کی گھڑی کی سوئی کتنی بار گھوم چکی ہے۔ لیکن ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے ساتھ بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ یہی نا کہ گھڑی کا وقت یا کیلنڈر کی تاریخ دیکھ کر ایک واقعے کا کسی دوسرے واقعہ سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ’’میں چھ بجے سو کر اٹھا‘‘ ، ’’دس بجے دفتر پہنچا۔‘‘ ’’کل میں بازار گیا تھا۔‘‘ ان جملوں سے یہی بتانا مقصود ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے اور دفتر پہنچنے کے درمیان کتنا وقت گزرا؟ بازار جانے سے لے کر آج تک کتنا عرصہ ہوا؟ اس طرح وقت یا مدت کا تعین ہم اپنے لیے تو کر سکتے ہیں لیکن پوری کائنات کے لیے نہیں کر سکتے۔ لیکن پوری کائنات کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہماری گھڑیاں، جن سے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، مہینے اور سال کا حساب لگایا جاتا ہے، نظامِ شمسی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ جسے ہم ’’ایک گھنٹہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اصل میں ہماری دنیا کا اپنے محور پر 15 ڈگری کا چکر کاٹنے کا دوسرا نام ہے، جسے ہم ایک سال کہتے ہیں۔ وہ ہماری دنیا کے سورج کے چاروں طرف ایک پھیرا لگانے کا نام ہے۔اگر ہم عطارد نامی سیّارہ میں بیٹھ کر اسی اصول کے تحت حساب لگانے بیٹھیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ سیّارہ سورج کے گرد ایک چکر 88 دنوں میں لگاتا ہے تو اس طرح وہاں کا سال 88 دنوں کا ہوگا اور ٹھیک اسی مدت میں (یعنی ہمارے 88 دنوں میں) عطارد اپنے محور کے گرد بھی ایک چکر مکمل کر لے گا۔ یعنی اس کا ایک دن ہمارے حساب سے 88 دنوں کا ہوگا۔ اور سال بھی 88 دنوں کا۔ دن اور رات، مہینہ اور سال کا حساب اور بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، جب ہم سورج سے پرے ہو کر کائناتِ بسیط کی صورتِ حال پر غور کرنے لگتے ہیں۔ وہاں نہ سورج ہے، نہ چاند!ان حالات میں اضافیت کا یہ اصول طے پایا کہ کسی ایک نظام سے باہر، وقت کا کوئی مقررہ پیمانہ نہیں ہوتا ہے۔ جب کبھی وقت کا درمیانی وقفہ ناپنے کی کوشش کی جائے گی، یہ کسی مخصوص نظام ہی کے تحت ہوگا۔ جب تک اس نظام کا حوالہ نہ ہو، ’’ابھی‘‘، ’’اسی وقت‘‘، ’’فوراً‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ فرض کیجئے کہ سعید نیویارک سے اپنے بھائی حمید کو لندن ٹیلیفون کر رہا ہے۔ نیویارک میں شام کے سات بجے ہیں اور لندن میں رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ ان دونوں شہروں کے وقت میں پانچ گھنٹوں کا فرق ہے۔ اس کے باوجود سعید اور حمید یہی کہیں گے کہ وہ ’’ایک ہی وقت‘‘ میں باتیں کر رہے تھے!اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نظام میں بس رہے ہیں۔ ان کی گھڑیاں ایک ہی نظام کے حساب سے کام کر رہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کی گھڑیاں اس کرئہ ارض کے اپنے محور پر گھومنے کے حساب سے درست کی ہوئی ہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پر غور کریں۔ ستاروں کے جھرمٹ میں روشن ترین ستارہ سماک رامح(Arctum) ہے جو 30 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی وہاں سے جو روشنی چلتی ہے وہ 186282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر 30 سال گزرنے کے بعد ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ اس ستارے پر ریڈیو کے ذریعہ اشارے (سگنل بھیجے جائیں تو وہاں تک پہنچنے میں انہیں 38 برس اور ان کی واپسی کے لیے اور 38سال لگ جائیں گے۔گویا جو روشنی آج وہاں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ 30 نوری سال قبل وہاں سے چلی تھی۔ ان 30 نوری برسوں کی مدت میں خدا معلوم، اس ستارے کا وجود باقی بھی ہے یا نہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ عین ممکن ہے کہ اس اثنا میں وہ خوشنما ستارہ ختم ہو چکا ہو اور جو روشنی ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس ستارے کا بھوت ہو۔ سچ کہا تھا مرزا غالب نے ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کُھلا (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن:داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭ -
      Umda Intekhab
      sharing ka shukariya


    9. #9
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: وقت کا پیمانہ

      پسند کرنے کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •